دلبر جان صبح سویرے بیدار ہوا تو اسے یوں محسوس ہوا کہ اس کے اندر نسوانی جذبات پیدا ہو گئے ہیں۔بے اختیار اس کا جی چاہنے لگا کہ وہ کچن میں جائے اور بیوی بچوں کے لئے عمدہ سا ناشتہ تیار کرے۔پورے گھر کی ڈسٹنگ کرے اور جھاڑو پونچھے میں ماسی ڈنڈی مارے تو اس کی اسی طرح خبر لے جیسے بیوی لیتی ہے۔لیکن اس وقت بہت سویرا تھا اور تھکی ہاری بیوی بے سدھ پڑی سو رہی تھی۔بچے دوسرے میں تھے وہ بھی خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔دلبر جان کو اپنے اندر پیدا ہونے والے نسوانی جذبات و احساسات سے کچھ گھبراہٹ بھی ہوئی۔کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کا چہرہ مہرہ بھی بدل کر نسوانی ہو گیا ہو۔یہ سوچ پیدا ہوئی تو وہ لپک کر ڈریسنگ ٹیبل کے پاس پہنچا اور آئینے کے سامنے اس نے اپنے چہرے اور حلیے کا جائزہ لیا۔نہیں کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔سب کچھ ویسا ہی تھا۔گھنی مونچھیں‘ گھنگریالے مردانہ بال‘چہرے پر مردانہ کرختگی اور اس کا مضبوط گھٹا ہوا جسم۔وہ تو بالکل ویسا ہی ہے اسے کچھ اطمینان سا ہوا۔لیکن ابھی وہ پوری طرح مطمئن بھی نہ ہونے پایا تھا کہ اس کا جی چاہنے لگا کہ بیوی کی کرتی(قمیص) اور ٹرائوزر (شلوار) پہن لے اور بیوی کا پرس کندھے پہ لٹکا کے گھر سے باہر شاپنگ کے لئے نکل جائے۔یہ خواہش اتنی پر زور تھی کہ اس سے رہا نہ گیا اس نے کپڑوں کی الماری کھولی اور اندر ہینگر میں بیوی کی لٹکی ہوئی کرتی اور ٹرائوزر کو نکال لیا۔تھوڑی ہی دیر میں وہ بیوی کا لباس پہن چکا تھا جو اس کے جسم میں کسا کسا سا تھا۔ظاہر ہے اس کے مردانہ جسم پر بیوی کا نسوانی مختصر سا لباس آسانی اور فراخی سے آ بھی کیسے سکتا تھا۔وہ بیوی کے کپڑے پہن کے آئینے کے سامنے کھڑا اپنے سراپے کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ بیوی کی آنکھ کھل گئی۔اس نے جو میاں کو اپنے کپڑے پہنے دیکھا تو اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔’’دلبر جان !یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے۔؟ ‘‘ اس نے تقریباً چلا کر کہا ایک لمحے کے لئے تو دلبر جان جھینپ گیا۔لیکن اگلے ہی لمحے اس پر نسوانی جذبات غالب آ گئے اور نسوانی جذبات ہوتے ہی کیا ہیں۔میاں چلائے تو بیوی خاموشی سے کان دبا کر سن لے۔ ’’کچھ نہیں بیگم! بس ذرا جی چاہ رہا تھا‘‘۔ ’’کیا جی چاہ رہا تھا۔تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو‘ تمہارا دماغ چل گیا ہے کیا؟‘‘ بیوی بستر سے اتر کر اس کے نزدیک آ گئی۔ ’’اتارو میرے کپڑے‘‘ اس نے میاں کی پہنی ہوئی قمیص کو اپنی طرف کھینچا۔ ’’ابھی اتارتا ہوں۔پریشان نہ ہو‘ ابھی اتارتا ہوں۔‘‘ اس نے سہم کر کہا۔فوراً ہی اس نے بیوی کے سامنے ایسے ہی ہتھیار پھیک دیے جیسے بیویاں شوہروں کے غیظ و غضب کے سامنے فوراً ہی ہتھیار ڈال دیتی ہیں۔دلبر جان کو خود اپنے رویے پر حیرت تھی۔عام حالات میں وہ اپنی بیوی کو اتنی آسانی سے چھوٹ نہیں دیتا تھا۔آج وہ اس کی ڈانٹ ڈپٹ اور چیخ و پکار کو پوری برداشت کے ساتھ جھیل رہا تھا۔ ’’میں واش روم سے آتی ہوں جب تک تم یہ کپڑے میرے اتار کر اپنے کپڑے پہنو اور انسان بن جائو۔آخر تمہیں ہوا کیا ہے؟‘‘ ’’تم واش روم سے آئو پھر میں تمہیں بتاتا ہوں۔پریشان نہ ہو‘‘۔ بیوی کے چلے جانے کے بعد اس نے جلدی جلدی اس کے کپڑے اتارے اسے الماری میں لٹکایا اور پھر اپنے کپڑے پہن لئے۔تھوڑی ہی دیر میں بیوی بھی آ گئی۔ ’’ہاں اب بتائو کیا بات ہے؟ میرے کپڑے پہننے کی تمہیں سوجھی کیسے؟‘‘ بیوی نے ذرا نرم لہجے میں پوچھا۔ ’’وہ ‘ وہ کیا ہے؟ ‘‘دلبر جان کچھ گڑ بڑا سا گیا۔اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ بتائے کیسے؟ ’’گھبرائو نہیں۔صاف صاف اور سچ سچ بتا دو۔‘‘ بیوی نے تسلی دی۔ ’’وہ آج میری آنکھ کھلی نا تو مجھے ایسا لگا کہ میں عورت ہو گیا ہوں‘‘۔ ’’یہ کون سی انوکھی بات ہے‘‘ بیوی نے اس کی پوری بات سنے بغیر کہا: ’’کبھی کبھی تم مردوں کی زیادتیاں دیکھتی ہوں تو میرا دل بھی چاہتا ہے کہ کاش! میں مرد ہوتی تو اس کا کیا مطلب ہے کہ میں تمہارے کپڑے پہن کر اور نقلی مونچھیں لگا کر باہر نکل جائوں۔‘‘ ’’نہیں تو میری بات نہیں سمجھیں۔یہ تو تمہاری سوچ ہے نا۔میرے تو جذبات اور احساسات ہی عورتوں جیسے ہو گئے ہیں۔میرا جی چاہنے لگا کہ تم لوگوں کو ناشتہ بنا کے کھلائوں۔سارے گھر کی ڈسٹنگ کروں۔ماسی ٹھیک کام نہ کرے تو اسے اسی طرح ڈانٹوں ڈپٹوں جیسے تم کرتی ہو‘‘ اس نے ایک ہی سانس میں ساری کتھا کہانی بیان کر دی۔‘‘ ’’یہ تو اچھی بات ہے۔یہ تو خدا نے تمہیں ہدایت دے دی ہے کیوں کہ ہم عورتوں اور بیویوں کا بھی دل چاہتا ہے کہ کوئی ہمیں بھی ناشتہ بنا کر دے دے۔گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹا دے۔ماسی پر چیختے چلاتے میرا گلا خشک ہو جاتا ہے کوئی اور ہو جو ان کام چور ماسیوں سے نمٹے۔یہ تو بڑی اچھی تبدیلی تمہارے اندر آگئی ہے۔مرد کو بھی اندر سے عورت جیسا ہی ہونا چاہیے۔اس میں بُِری بات کیا ہے؟ بیوی نے اچھا بھلا لیکچر دے دیا۔دلبر جان جو بہت غور سے اس کا لیکچر سن رہا تھا گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ ’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ بیوی نے اس کا بازو پکڑ کر ہلایا۔ ’’نہیں کچھ بھی نہیں ‘‘ اس نے گڑ بڑا کر کہا ’’اچھا اگر میرا ناچنے کا دل چاہے تو ۔؟‘‘ ’’تو شوق سے ناچو۔آخر فلموں میں ہیرو ناچتا ہے یا نہیں‘‘۔ ’’نہیں لڑکیوں کی طرح عورتوں جیسا ناچ۔ان کی طرح ناچنے کا دل کرے تو؟‘‘ ’’تو بے شک ان کی طرح ناچو۔یہ فلموںمیں جو عورتیں یا ہیروئنیں ناچتی ہیں انہیں مرد رقاص ہی تو سکھاتے ہیں۔ ’’اچھا‘‘ دلبر جان نے بے بسی سے کہا ’’تم کو کیا ہو گیا ہے دلبر جان!‘‘ بیوی نے کہا۔ ’’بچے پیدا کرنے کے سوا کون سا کام ہے عورتوں کا جو مرد کرنا نہیں جانتے۔کھانا جتنا اچھا شیف بناتے ہیں۔عورتیں نہیں بنا پاتیں۔سارے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں مرد ہی کک ہوتے ہیں۔گھروں کی آرائش و زیبائش جو عورتوں کا کام ہے‘ مرد ہی یہ کام بھی کرتے ہیں۔بچوں کی تربیت جتنا اچھا باپ کرتا ہے ماں نہیں کر پاتی۔تو اس کا کیا مطلب ہے کہ مرد عورت ہو جائے۔مرد ہر حال میں مد ہی رہتا ہے۔چاہے وہ عورتوں کے سارے کام کرنے کا عادی ہی کیوں نہ ہو گیا ہو ’’بیوی بولتے بولتے رکی تو دلبر جان نے کہا:’’میں تو سوچ رہا تھا کہ جا کر نادرا میں درخواست دے دوں کہ میں عورت ہو گیا ہوں اس لئے میری جنس کی تبدیلی کو رجسٹر ڈکر لیا جائے۔‘‘ ’’اچھا تمہارا دماغ چل گیا ہے تو ضرور نادرا جائو۔لیکن اس کے بعد یہ بتائو کہ تم بچے پیدا کر لو گے۔نام نہاد عورت بن کر بچے کو اپنا دودھ پلا لو گے۔جواب دو۔‘‘ بیوی نے غصے میں اسے جھنجھوڑا۔ ’’نہیں میں یہ تو کبھی نہیں کر سکتا‘‘ ’’تو پھر مرد رہ کر عورتوں والے کام میں شرمندگی محسوس نہ کرو۔بلکہ خود کو عورت سمجھنا چاہتے ہو تو شوق سے سمجھو لیکن تم رہو گے مرد ہی۔