بھارت کی موجودہ حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی نے 1998ء میں پارلیمانی انتخابات کے دوران اشوکا روڑ اپنے ہیڈ کوارٹر میں پہلی اور آخری افطار پارٹی دی تھی۔ اٹل بہاری واجپائی ابھی اپوزیشن لیڈر ہی تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں اس تقریب میں پہنچا تو دیکھا کہ پارٹی آفس کے وسیع و عریض لان میں شامیانہ لگا ہوا تھا ، جس کے دروازے پر خود واجپائی اور چند دیگر لیڈران ٹوپی پہنے مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے۔ ابھی افطار میں آدھا گھنٹہ باقی تھا، مگر شامیانہ کے اندر چائے سموسہ اور کھجوروں کا دور چل رہا تھا۔لوگ آرام سے کھا پی رہے تھے، افطار کے وقت کا کسی کو احساس نہیں تھا۔ سید شاہنواز حسین، جو بعد میں مرکزی وزیر کے عہدے پر فائز ہوئے، ان دنوں بی جے پی کی یوتھ ونگ کے لیڈر تھے۔ بستی نظام الدین اور دیگرعلاقوں سے چنیدہ مسلمانوں کو افطار پارٹی میں لانے کی ذ مہ داری ان کو دی گئی تھی ۔ وہ کیٹرنگ والے سے الجھ رہے تھے کہ افطار سے قبل ہی اس نے ناشتے کی قابیں کیوں سجائی ہوئی تھیں۔ خیر جب افطار کا وقت ہوا، تو خالی قابیں روزہ داروں کا منہ چڑھا رہی تھیں۔کسی طرح پانی وغیرہ پی کر روزہ تو کھولا۔ اب مغرب کی نماز ادا کرنے کا کوئی انتظام موجود نہیں تھا۔جن مسلمانوں کو تقریب میں لایا گیا تھا و ہ شاہنواز پر برس رہے تھے۔ کسی طرح اس نے دفتر کے پچھواڑے میں نماز کیلئے لان کو صاف کروایا۔ اب جس وقت روزہ دار نماز ادا کررہے تھے ، تب کیٹرنگ والے نے ڈنر پیکٹ بانٹنے شروع کردئے۔ بجائے قابوں مین کھانا رکھنے کے ، پارٹی نے ڈنر پیکٹوں کا انتظام کیا ہوا تھا۔ جب نماز ختم ہو ئی اور روزہ دار شامیانہ میں واپس آئے، معلوم ہوا کہ سبھی ڈنر پیکٹ ختم ہو چکے تھے۔ بھوکے پیاسے روزہ دار شاہنواز اور بی جے پی کو صلواتیں سناتے ہوئے گھروں کو روانہ ہوئے۔ کورونا وائرس اور لاک ڈاون کی وجہ سے اس سال ماہ مبارک رمضان کے معمولات تو دنیا بھر میں متاثر ہوئے ہی ہیں، مگر بھارتی دارالحکومت دہلی میں 2014ء میں وزیر اعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ہی اس ماہ کی رونقیں چھن گئی تھیں۔ مودی کی دہلی آمد کے فوراً بعد ہی دارالحکومت میں افطار پارٹیوں کا سلسلہ بند ہوگیا۔چونکہ انہوں نے اپنے وزراء کو بھی پارٹیوں میں شامل ہونے سے منع کردیا تھا ، اسلئے دیگر سماجی تنظیموں نے بھی آہستہ آہستہ افطار پارٹیوں کے انعقاد سے ہاتھ کھینچ لئے۔افطار پارٹیوں کو قصہ پارینہ بنایا گیا۔گو کہ بی جے پی نے اپنے دفتر میں بس 1998ء میں ہی واحد افطار پارٹی کا انعقاد کیا تھا، مگر وزیر اعظم بننے کے بعد واجپائی اپنی رہائش گاہ پر ہر سال اس کا انتظام کرتے تھے۔ 2014 ء سے قبل ماہ مبار ک کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی و سماجی اداروں کی طرف سے افطار پارٹیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا تھا۔ خبروں کے متلاشی صحافیوں، طبقہ اشرافیہ، سیاسی و مذہبی لیڈروں نیز سفارت کاروں کیلئے افطار پارٹیاں سیاسی و سفارتی شخصیات کے ساتھ غیررسمی روابط اور سیاسی حالات کی نبض پرکھنے کا ذریعہ بھی بنتی تھیں۔ اس مقدس ما ہ میں سیاسی و سفارتی سرگرمیاں اس قدر عروج پر ہوتی تھیں، کہ میڈیا اداروں میں افطار پارٹیاں کور کرنے کیلئے باضابطہ رپورٹروں کی بیٹ لگتی تھی۔صاحب اختیار و استطاعت افراد اس ماہ کا بھر پور فائدہ اٹھا کرکچھ مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے بطور ، مگر زیاد ہ تر اپنے آپ کو سیکولر جتانے اور اسکی نمائش کیلئے افطار پارٹیوں کا اہتمام کراکے اپنا ووٹ بینک پکا کروانے کا بھی سامان کرتے تھے۔افطار پارٹیوں کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنانے پر بحث کی گنجائش تو ہے، مگر بھارت جیسے تکثیری معاشرہ میں یہ دیگر مذاہب یا طبقوں تک پہنچنے کا ایک آوٹ ریچ کا ذریعہ بھی تھا ۔ایک منظم اور پر وقار ماحول میں روزہ کھولنا اور نماز مغرب کی صف بندی اور خاص و عام کا کندھے سے کندھا ملانا کہیں نہ کہیں ایک پیغام کا کام ضرورکرتا تھا۔ کشمیر میں بھی چونکہ افطار پارٹیوں کا کوئی رواج نہیں تھا، اسلئے دہلی آمد کے بعد یہ میرے لئے بھی ایک نیا تجربہ تھا۔ کشمیر میں تو افطار سے قبل ایک طرح سے کرفیو سا لگتا تھا۔مارکیٹ سنسان ہوجاتی تھیں۔ لوگ عام طور پر اپنے گھروں یا مقامی مساجد میں ہی روزہ کھولنے کو ترجیح دیتے تھے۔ افطار کا بھی ا لگ سے کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ جلد ہی نماز ادا کرنے کے بعد لوگ ڈنر کرتے تھے۔اس ماہ کے دوران تقریباً سبھی سرگرمیاں اور روابط ماند پڑ جاتے تھے۔اپنے دور طالب علمی میں ہی 90ء کے اوائل میںمجھے پہلی بار سابق وزیر اور کیرالہ صوبہ کے موجودہ گورنر عارف محمد خان کی رہائش گاہ پر افطار پارٹی میں شرکت کا موقع ملا۔ ان کی ایک قریبی رشتہ دار میرے ڈیپارٹمنٹ میں سینئر تھیں۔ انہوں نے ہی دعوت نامہ دیکر آنے کی تاکید کی تھی۔افطار پارٹی کیا تھی، بس ایک عالیشان شادی کا سا سماں تھا۔ جن سیاسی و سماجی چہروں کو ٹی وی یا اخباروں میںدیکھتے آرہے تھے وہ گوشت و پوست کے ساتھ الگ الگ میزوں پر برا جماں تھے۔ وزیر اعظم سمیت سبھی مرکزی وزراء ، بالی ووڈ کے نامور اداکار وغیرہ موجود تھے۔ اس پارٹی میں میری پہلی بار مرحوم مفتی محمد سعید سے ملاقات ہوئی۔ گو کہ سوپور میں کئی بار پبلک جلسوں میں ان کی تقاریر سننے کا موقع ملتا تھا، مگر با لمشافہ کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ کشمیر ی ہونے کی حثیت سے بھی میں انکو گہرے شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ میں انکوبھارتی ایجنسیوں کا پروردہ، جس کو کشمیری خواہشات کو کچلنے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہو،سمجھتا آرہا تھا ، جس نے1977ء میں شیخ محمد عبداللہ کی حکومت کو گرایا اور بعد میں 1984ء میں دہلی کی ایما پر فارق عبداللہ کو معزول کروایا اور جو کشمیر میں سیاسی بے چینی کا سبب بھی رہا ۔میری میزبان نے میرا ان سے تعارف کرایا توانہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر شکایت کی کہ کشمیری مسلم نوجوان یا تو صحافت میں آتے ہی نہیں، یا کیرئیرکیلئے دہلی کا رخ نہیں کرتے۔انہوں نے مجھے یاد دلایا، کہ مجھ سے قبل یو این آئی کے شیخ منظور احمد اور سنڈے آبزرور کے ایڈیٹر محمد سعید ملک ہی بس دو ایسے کشمیری مسلمان ہیں، جنہوں نے دہلی میں صحافت میں کیرئیر بنایا۔انہوں نے کسی کو شیخ منظور، جو ان دنوں یو این آئی نیوز ایجنسی میں سینئر پوزیشن میں کام کرتے تھے، کو ڈھونڈنے کیلئے کہا۔ منظور صاحب پر نظر پڑتے ہی انہوں نے ان سے میرا تعارف کرواکر ان کو صلاح دی کہ وہ میرا خیال رکھیں۔ مجھے بھی مشورہ دیا کہ کشمیر واپس جانے کے بجائے دہلی ہی میں جرنلزم میں جگہ بناوں اور منظور صاحب اور ملک صاحب سے مشورہ لیتا رہوں ۔ گو کہ مودی نے آتے ہی وزیر اعظم ہاوس میں افطار کا سلسلہ تو بند کروادیا، مگر صدر پرناب مکھرجی نے صدارتی محل میں اس کو موقوف نہیں کیا تھا۔ 2017ء تک اپنی مدت صدارت ختم ہونے تک ا نہوں نے اس سلسلہ کو جاری رکھا۔ تمام ممالک کے سفراٗ ، اپوزیشن لیڈران و دیگر افراد اس میں شرکت تو کرتے تھے، مگر پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مودی نے کبھی بھی اس میں شرکت نہیں کی۔ مگر ایک یاد و وزیر حکومت کی نمائندگی کرنے پہنچ جاتے تھے(جاری ہے)