ایک مدت سے اپنا قیام، واشنگٹن ڈی سی کے نواحی علاقے فیئر فیکس میں ہے۔ ریاست ِورجینیا کی اس کائونٹی میں درخت اورپودے ہر قدم پر جلوہ دکھا رہے ہیں۔ سبزے اور ہریالی سے جیسی آرائش، اس علاقے کی ہوئی ہے، دیکھنے دکھانے سے تعلق رکھتی ہے! کبھی ایسی ہی زیبائی، میرے شہر اسلام آباد میں بھی تھی۔ پھر ہوا یہ کہ "باہر" والوں کی آبادی بڑھتی گئی اور شہر کیا، پورا مْلک برباد ہوتا گیا۔ یہ خاکسار، صبح خیز ہے اور علی الصباح، گھر کے قریب واقع جھیل کی سیر، اپنا معمول ہے۔ چند روز پہلے، رات کو آندھی کے جھکڑ چلنے لگے۔ آخری پہر، دھونتال مینہ برسا اور برستا ہی رہا۔ سویرے تڑکے، مشی کے لیے گھر سے باہر جو نکلا تو ہر چیز نکھری ہوئی نتھری ہوئی تھی اور موسم ِگرما کی حدت ناپید۔ ہوا اتنی تیز چل رہی تھی کہ ع تیر سی، دل کے پار ہوتی تھی خدا خدا کر کے ہوا تھمی۔ اب بوندا باندی دوبارہ شروع ہو گئی۔ موسم بہار کا نہیں تھا، لیکن منظر کچھ ایسا دلکش اور اتنا دل گداز تھا کہ قصیدہ نگار کی منظر نگاری تازہ ہو گئی۔ اْٹھ گیا بہمن و دے کا چمنستاں سے عمل /تیغ ِاْردی نے کیا مْلک ِخزاں مستاصل/قوت ِنامیہ لیتی ہے نباتات کا عرض/ڈال سے پات تلک، پھول سے لے کر تا پھل/واسطے خلعت ِنوروز کے، ہر باغ کے بیچ/آبجْو، قطع لگی کرنے، روش پر مخمل/بخشتی ہے گْل ِنو رستہ کی رنگ آمیزی/پْوشش ِچھینٹ ِقلم کار، بہر دشت و جبل/عکس ِگلبن، یہ زمیں پر ہے کہ جس کے آگے/کار ِنقاشی ِمانی ہے دوم، یہ اوّل/تار ِبارش میں پِروتے ہیں گہر ہاے تگرگ/ہار پہنانے کو اشجار کے، ہر سْو بادل دست ِ قدرت نے، ہر نقش، یہاں اس طرح جمایا ہے کہ یہ تصویر، ہاتھ لگانے سے میلی ہو اور نزاکت ایسی کہ بقول ِسودا ہی ع شمع ساں، گرمی ِنظارہ سے جاتی ہے پِگل سخت گرمی اور اس پر لاک ڈائون کا عذاب۔ بارش نے دل کی بھی ساری کلفت دھو ڈالی۔ دل خوش کیوں نہ ہو؟ پرندوں کی چہکار سے فضا گونج رہی ہے۔ جھیل میں بطخیں تیر رہی ہیں، مْرغابیاں اْڑ رہی ہیں۔ درختوں کے گرد گِلہریوں کی اچھل کْود عام ہے۔ ان بے زبانوں کی جست و خیز میں انسان، مجال ہے کہ مْخل ہو جائے؟ نہ یہ خوف کہ انہیں کوئی مار کھائے گا۔ نہ یہ خدشہ کہ یہاں پر نصب بینچیں، کوئی اکھاڑ لے جائے گا۔ اشجار کو گزند پہنچانے کا بھی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ درختوں کے جھْنڈ جہاں زیادہ گھنے ہیں اور یہ سلسلہ وسیع ہے، وہاں کبھی کبھی ہرنوں کی ڈاریں بھی دکھائی دے جاتی ہیں۔ پھر ان کے کْدکڑے اور قلانچیں بھرنا دیکھیے۔ "آدم بْو" سے یہ کیوں بدکیں؟ اْلٹا راہ چلتے، بطخیں بے دھڑک آپ کی راہ کاٹتی جاتی ہیں۔ ان کی بِیٹھیں اٹھانا بھی جھیل کی صفائی کرنے کا حصہ ہے۔ آندھی سے ایک درخت ٹوٹ کر راہ مسدود کر گیا ہے۔ مگر اسے کاٹنا یا اْٹھا لے جانا، جْرم ہے۔ حد یہ ہے کہ پچھلے دنوں خبریں سننے میں آئیں کہ کئی آبادیوں میں ریچھ دکھائی دیے ہیں۔ ایک گھر کے عقبی باغیچے میں، تیرنے کا پْول دھرا ہوا تھا۔ سخت گرمی کے موسم میں، ایک ریچھ صاحب پْول میں سستاتے پائے گئے۔ اس کا مقابلہ ذرا اپنے ہاں سے کیجیے۔ مگر للہ، الزام عوام پر نہ دھریے گا۔ پاکستانی معاشرے کے انحطاط کی وجہ، عوام نہیں خواص ہیں! یہ دیکھ چکے ہیں کہ ایک صاحب مْلک کو تباہ کر کے، دبئی جا بیٹھے۔ دوسرے لندن سے مدتوں، ایک کروڑ افراد کو کٹھ پْتلیوں کی طرح نچایا کیے۔ تیسرے نے پورے سندھ کو مْوس کر رکھ دیا ہے۔ چوتھے کی طبیعت، مْلک سے باہر پہنچ کر ہی ٹھیک ہوتی ہے۔ پانچویں صاحب، دس قدم کے فاصلے پر واقع، ذاتی رہائش گاہ جانے کے لیے بھی سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں۔ الناس علٰی دین ملوکہم۔ شکایت عوام سے نہیں، خواص سے کرنی چاہیے۔ یہ سیدھے ہو جائیں، تو معاشرہ سنور جائے گا۔ ان کا بگاڑ، مْلک کا بگاڑ ہے!ا ………… قومی ترانہ اور پاکستان کا خواب! حفیظ جالندھری کی باقی رہ جانے والی یادگاریں تین ہیں۔ شاہنامہ اسلام، خالص مذہبی خدمت ہے اور آج بھی مقبول ہے۔ ادب کی کسوٹی پر، اسے اگر کسا جائے تو حاصل وہی ہے جو میر انیس کے مراثی کا ہے۔ باقی مذہبی خدمت ہے!حفیظ صاحب کی دوسری یادگار ان کی نظم، ‘‘ابھی تو میں جوان ہوں’’ ہے۔ اس پائے کی نظم، ان کے معاصرین بہت کم کہہ پائے ہیں۔ مثلا جوش صاحب کی طویل نظمیں، جن میں بھاری بھرکم لْغات کا استعمال کیا گیا ہے ! حفیظ صاحب کا سب سے بڑا اور ان شاء اللہ باقی رہ جانے والا کارنامہ، قومی ترانہ ہے۔ قومی ترانہ، حفیظ صاحب نے لگتا ہے کہا نہیں بلکہ ان پر اْترا ہے! اس شہ پارے کی تخفیف نہ ہو، لیکن کہنا پڑتا ہے کہ اس کا رنگ سراسر اقبال سے ملتا جلتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ اس روز پرتو ِاقبال، حفیظ پر چھایا ہوا تھا! مقابلے میں جو کاوشیں دوسرے اور تیسرے نمبر پر آئیں، ان میں اور اس میں، زمین آسمان کا فرق ہے! جوش صاحب اس میں شریک نہیں ہوئے’’۔ دوسری طرف، بھارت کا ترانہ، اوّل تو کسی کی سمجھ میں آتا نہیں۔ اس پر ‘‘گجرات، سندھ، پنجاب، مراٹھا’’ کی لائن بے کار ہو چکی ہے۔ اس لیے کہ سندھ، پاکستان کا حصہ ہے! ترانے کی طرح، پاکستان کا خواب دیکھنے والا اور اس کا بنانے والا بھی بے مثال تھے! مگر ان کے بعد، اسے چلانے والا، ایک بھی نہیں ملا! پاکستان کو صحیح ڈھرے پر چلانے والا، جس دن آ گیا، اس سے جْڑی، ساری مْرادیں بر آئیں گی! فی الحال، ایک طویل سفر ہے، جو بے مْرادی ہی کا نہیں، بے راہی کا بھی ہے! ایک رات ہے، جس کی سحر ہو کے نہیں دے رہی! بقول ِسعدی درازی ِشب از مژگان ِمن پْرس کہ یک دم خواب در چشمم نہ گشت است