گو کہ مودی نے آتے ہی وزیر اعظم ہاوس میں افطار کا سلسلہ تو بند کروادیا، مگر صدر پرناب مکھرجی نے صدارتی محل میں اس کو موقوف نہیں کیا تھا۔ 2017ء تک اپنی مدت صدارت ختم ہونے تک ا نہوں نے اس سلسلہ کو جاری رکھا۔ تمام ممالک کے سفراٗ ، اپوزیشن لیڈران و دیگر افراد اس میں شرکت تو کرتے تھے، مگر پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مودی نے کبھی بھی اس میں شرکت نہیں کی۔ مگر ایک یاد و وزیر حکومت کی نمائندگی کرنے پہنچ جاتے تھے، جو صدر کی ہال میں آمد پر ان کا استقبال کرکے فوراً ہی رخصت ہوجاتے تھے کہ کہیں دیگر مہمانوں سے ملنے جلنے کے دوران کی فوٹو نہ کھنچے ۔ صدارتی محل یا راشٹرپتی بھون میں جب ایک بار افطار پارٹی کے بعد مغرب کی اذان تو ہوئی، مگر نماز کیلئے امام کا کہیں اتہ پتہ نہیں تھا۔وسیع و عریض صدارتی اسٹیٹ کے احاطہ میں ایک مسجد موجود ہے۔ اسی مسجد کے یا پارلیمنٹ کے بغل میں جامع مسجد نئی دہلی کے امام صاحبان اس موقعہ پر امامت کرتے تھے۔ مگر دونوں اس دن غائب تھے۔ تمام مسلم ممالک کے سفراء ، اراکین پارلیمان و دیگر زعماء صفوں میں کھڑے امام کو تلاش کر رہے تھے کہ پاکستانی سفیر عبد الباسط نے آگے بڑھ کر امامت کا منصب سنبھال کر نماز ادا کروائی۔اس دن معلوم ہوا کہ باسط صاحب ایک خوش الحان قاری بھی ہیں۔ایک روح پرور منظر تھا کہ تمام دنیا کے مسلم سفراٗو بھارتی مسلم زعماء ایک پاکستانی سفیر کی اقتدا میں نمار ادا کررہے تھے۔ اسی طرح ایک بار صدارتی محل ہی میں وزیر اعظم من موہن سنگھ کی دوسری مدت حکومت میں مرکزی وزیر فاروق عبداللہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ یہاں اس تقریب میں ہم دو کے بغیر کوئی اور روزہ دار نہیں لگ رہا ہے، افطار کا وقت ہورہا ہے، اسلئے ہم ڈنر ہال کے گیٹ کے پاس بیٹھ کر فوراً ہی اندر چلے جاتے ہیں۔ صدر ریسپشن ہال میں آکر سبھی مہمانوں سے ایک ایک کرکے مل رہے تھے، فاروق صاحب سمجھا رہے تھے کہ ہم افطار کرنے آئے ہیں، دیگر افراد کی طرح صدر سے ملنے نہیں آئے ہیں۔ شاید راشٹرپتی بھون کے بیرے بھی ہمیں دیکھ کر تاسف کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے آکر ہمیں تسلی دی کہ افطاری میں خاصے لوازمات وافر مقدار میں ہیں۔ وہ یہ کہنے کی کوشش کررہا تھا۔ انجانوں کی طرح دروازے پر پہرہ دینے کی ضرورت نہیں ہے، افطار کے وقت ناشتہ وغیرہ مل ہی جائیگا۔ میں نے فاروق صاحب سے پوچھا کہ ان کی رنگیلی طبیعت اور امیج کے برعکس وہ آجکل مومن کیسے ہوگئے ہیں؟ انکا کہنا تھا کہ ماہ رمضان میں وہ سبھی دنیاوی کام چھوڑ کر روزوں کی سختی سے پابندی کرتے ہیں اور ختم قرآن شریف بھی کرتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ یہ ان کی ماں کا اعجاز ہے کہ وہ ان کو اور دیگر بھائیوں اور بہنوں کو روزہ اور تلاوت قرآن کی تاکید کرتی تھی۔اپنے باپ شیخ محمد عبداللہ کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتا رہے تھے کہ وہ بہت ہی سخت گیر قسم کے والد تھے اور اکثر ان کو چھڑی سے پیٹتے تھے، پر والدہ ہی انکو چھڑا تی تھی۔ بیگم اکبر جہاں، ایک نومسلم انگریز جان نیڈواور ایک کشمیر ی گوجر لڑکی کی اولاد تھی۔ مگر سخت مذہبی اور صوم و صلوات کی پابند خاتون تھی ۔ فاروق صاحب نے کہا کہ اپنی والدہ کی یاد میں وہ رمضان میں روزہ و نماز کا سختی کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 70ء کی دہائی کے آخر میں سوشلسٹ لیڈر ہیم وتی نندن بہوگنا نے مسلمانوں میں سیاسی آوٹ ریچ کیلئے افطار پارٹیوں کے سلسلہ کو شروع کردیا تھا، جس کو بعد میں اندرا گاندھی اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ سابق وزراء اعظم اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ، جن کی حکومت حلیف پارٹیوں کی بیساکھیوں پر ٹکی ہوئی تھی، کے دور میں یہ افطار پارٹیاں پس پردہ سیاسی سرگرمیوں اورنا راض حلیفوں کو منانے کے کا م بھی آتی تھیں۔وزیر اعظم مودی اور انکے دست راست امیت شاہ نے جس طرح انتہائی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کو ایک طرح سے سیاسی اچھوت بنا کر رکھ دیا ہے، افطار پارٹیوں کا خاتمہ اس کی ایک واضع مثا ل ہے۔ بھارت کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کا وجود ہی مسلمانوں کی حمایت پر منحصر ہے۔1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد اس صوبہ میں مسلمانوں نے کانگریس سے کنارہ کشی اختیار کرکے اس پارٹی کا دامن تھام لیا ۔ انکی حمایت سے پارٹی کی سربراہ ملائم سنگھ یادو تین بار صوبہ کے وزیرا علیٰ اور ایک بار مرکزی وزیر بنے ۔ ان کے صاحبزادے اور پارٹی کے موجودہ صدر اکھلیش سنگھ یادو بھی پانچ سال تک وزیر اعلیٰ کی مسند پر فائز رہے۔ ملائم سنگھ کو طنزاً ہندو انتہا پسند مولانا سنگھ اور مسلمان رفیق ملت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔اس پارٹی کا حال یہ ہے کہ پچھلے سال ماہ رمضان سے دو ماہ قبل پارٹی سربراہ نے ضلعی صدور کو پیغام بھیجا کہ اس سال تزک و احتشام کے ساتھ افطار پارٹیوں کا اہتمام نہ کیا جائے۔ اگر ذاتی طور پر کوئی مقامی لیڈر افطار کا اہتمام کرتا ہے تو وہاں ملائم سنگھ یا اکھلیش سنگھ کی تصویر یا پارٹی کا بینیر آویزان نہیں ہونا چاہئے۔مزید ہدایت تھی کہ اگر کسی کی افطار پارٹی میں جانا ہوا تو وہاں ٹوپی لگا کر سلفی یا تصویریں نہ کھنچیں یا کم از کم انکو سوشل میڈیا کی زینت نہ بنائیں۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جہاں سیکولر پارٹیاں افطار پارٹیوں سے دور بھاگتی نظر آئیں، وہیں دوسری طرف ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) کی شاخ مسلم راشٹریہ منچ نے پچھلے سال کئی شہروں میں مسلمانوں کیلئے افطاری کا بندوبست کیا ۔ خیر بھارت میں اس نئے رجحان کے تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کو واقعی سیاسی اچھوت بنایا گیا ہے اور کیا جو پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق یا انکی تقریبات میں شرکت کریں گی ان کو ووٹ نہیں ملیں گے۔ بی جے پی نے تو مسلمانوں کو چھوڑ دیا ہے، مگر اب بیشتر سیاسی پارٹیوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کے قریب نظر آتی ہیں، تو انہیں ہندو اکثریتی طبقہ کا ووٹ نہیں ملے گا۔ حکومت گجرات کے ایک سابق افسر ہر ش مندر کے مطابق مسلمانوں کیلئے اتنا برا وقت پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ یہاں تک کی تقسیم کے موقع پر بھی نہیں۔ گو کہ دنیامیں مسلمانوں کی جو آبادی ہے اس کا دسواں حصہ بھارت میں ہے، مگر اس کے باوجود وہ سیاسی یتیم بنائے گئے ہیں۔ مسلمان کل آبادی کا 15فیصد ہونے کے باوجود سیاسی طور پر بے وزن بنائے گئے ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ گزشتہ9صدیوں سے مسلم حکمرانوں کی غلطیوں کے باعث ’’ہندو‘‘ لفظ مخصوص مذہب کی پہچان بن گیا۔اسلام جو کہ ایک آفاقی سماجی نظام کا نقیب بن کر دنیا میں آیاتھا۔ اس کے ماننے والوں نے بھارت میں کبھی بھی صدیوں سے دبے کچلے مظلوم طبقوں کے ساتھ اتحاد بنانے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی اپنی حکومت اور طاقت کا استعمال کرکے ان طبقوں کو وسائل مہیا کرائے۔عہد قدیم میں بھارت میں الگ الگ مذاہب موجود تھے، جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیںتھا۔ مسلمان حکمرانوں نے ان سبھی کو ہندو کہنا شروع کیا۔ جبکہ ان کے عقائد میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ آہستہ آہستہ اس پوری آبادی نے اپنے آپ کو ہندو ماننا شروع کردیا۔ ورنہ بھارت میں ہندو طبقہ ایک طرح سے سناتن دھرم کے ماننے والوں تک ہی محدود تھا۔ آج بھی یہ طبقہ ، جو اپنے آپ کواعلیٰ ذات کے ہندو کہتا ہے ، مجموعی آبادی کا صرف 15فیصد ہے۔ (ختم شد)