کیسے سنبھال پائے گا اپنے تو ماہ وسال کو ہم نے اگر جھٹک دیا سر سے ترے خیال کو کیسے بدل کے رکھ دیا لوگوں نے اہتمام سے کچھ نے ترے جواب کو کچھ نے مرے سوال کو تو با ت کچھ یوں ہے کہ منظر بدل رہا ہے اور پھر ہماری آنکھوں یعنی دیکھتی آنکھوں کے سامنے بدل رہا ہے۔ وسوسے اپنی جگہ اور خدشات اپنے مقام پر۔ ہم دیکھ نہیں رہے کہ ہمارے خان صاحب کس قدر مصروف نظر آتے ہیں اور وہ بین الاقوامی سیاست میں اپنا رول ادا کر رہے ہیں۔ ایران اور سعودیہ کی کہنہ عدوتیں ختم کروانے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیںکہیں وہ شاہ سلمان اور ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان سے ملاقات میں مصروف ہیں اور کہیں ایران میں شاہی مہمان ۔ گویا کہ وہ عالمی بساط پر مرکز نظر ہیں۔ قیام امن بہت اچھی بات ہے۔ امریکہ بھی اپنے انداز میں امن قائم کرنا چاہتا ہے مگر اس وقت چین کی نظریں بھی عمران خان پر ہیں۔ یہ تو خیر ہماری خارجی پیش رفت ہے۔ داخلی طور پر بھی تو ماشاء اللہ رونقیں لگی ہوئی ہیں۔ برطانوی شہزادہ ولیم اور کیٹ پاکستان کے دورے پر آئے۔ میڈیا ان کے ساتھ عمران خاں کو بھی خوب دکھا تارہا ۔ یقینا یہ ایک فطری سی بات ہے مگر ساتھ یہ ساتھ پرانی یادیں بھی تازہ کی گئیں۔ یہ سب کچھ بہت گلیمر میں نظر آ رہا تھا مگر کیا کریں لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے۔ یعنی دھیان اپنی شہ رگ کی طرف بھی جاتا ہے جو پنجہ ہنود میں ہے۔کشمیر میں حالات جوں کے توں ہیں۔ مگر کیا کیا جائے اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ عمران خاں کے بیرونی دوروں سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ ملکی حالات بہت ہی پر افزا جا رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ خان صاحب کا یہ کہنا کہ دھرنا صوبائی معاملہ ہے۔ آپ مہنگائی کم کرنے کی کوشش کریں۔ یہ تجاہل عارفانہ اور معصومانہ خواہش کے سوا کچھ بھی نہیں۔ لوگ سیاست کا بھی شعور رکھتے ہیں اور معیشت سے بھی واقف ہیں۔ دیکھا جائے تو حکومت سے لے کر سوشل میڈیا ورکر تک مولانا فضل الرحمن پر اپنی طبع آزمائی کر رہے ہیں اور انہوں نے اس حوالے سے خود ہی ہائپ کرئیٹ کیا ہوا ہے۔ دوسرا مہنگائی کو کنٹرول کون کرے گا۔ کیا بجلی ساڑھے تین روپے فی یونٹ مہنگی کرنے سے مہنگائی کنٹرول ہو گی۔ کیا دوائیوں کی قیمتیں بے تحاشہ بڑھا دینے سے گرانی کم ہو گی اور کیا ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی فیسیں بڑھانے سے غریبوں کو آسودگی ملے گی۔ جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی: اک بات کا رونا ہو تو رو کر صبر آئے ہر بات پہ رونے کو کہاں سے جگر آئے اب آپ فواد چودھری کی سن لیجیے کہ حکومت 400ادارے بند کر رہی ہے۔ عوام نوکریاں نہ مانگیں ۔ نوکریاں حکومت نہیں پرائیویٹ سیکٹر دیتا ہے حکومت تو صرف ماحول بناتی ہے۔ ماحول کا بھی جواب نہیں کہتے ہیں بندہ برا ہو تو گزارا ہو جاتا ہے کوئی فضول نہ ہو۔ کیا آپ کو یہ رویہ فضول نہیں لگ رہا۔ جب یہی کام نواز حکومت کرنا چاہتی تھی تو یہ ظلم تھا اور ہزاروں لوگوں کے بے روزگار ہونے کا درد کس کس کو نہیں تھا! وہ جو اس وقت ناروا تھا اب روا ہے۔ یارا انصاف بھی کوئی چیز ہے رومانس کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ سب کچھ سطحی اور عارضی سا دکھائی دیتا ہے۔ ملک کی داخلی صورت حال بالکل بھی تسلی بخش نہیں۔ ڈینگی بخار کا معاملہ بھی دب گیا ہے کہ ہم کہیں اور الجھے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹرز ہڑتالیں کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف ہمارے تین صاحب پھر مرغی انڈے یا انڈے مرغی کا فلسفہ لے آئے ہیں کہ یہی ایک خوشحالی کا راستہ ہے۔ ان معاملات میں بھی غالب کا شعر یاد آ گیا: تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے بھارت ہے کہ آئے روز فائرنگ اور گولہ باری کر رہا ہے اور ہم ان کی توپوں کے منہ بند کرواتے آ رہے ہیں۔ دوسری طرف کوئٹہ میں دھماکہ اور وزیرستان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ 3اہلکار شہید ہو گئے۔ یہ سب ملکی حالات ہی تو ہیں۔ مگر میں تو پھر بھی یہ نہیں کہوں گا کہ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔ میں کہتا ہوں اپنی بھی تو نبیڑیں ۔ کوئی مانے یا نہ مانے ملک میں قانون کی گرفت نہیں ہے یا یوں کہہ لیں کہ عملداری نہیں ہے۔ وگرنہ کانسٹیبل چور بن کر گھروں کو لوٹتے۔ حالانکہ انہیں وردی اتارنے کا تکلف کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ وہ اپنا عمل ٹھیک کرنے کی بجائے موبائل کیمرہ تھانے میں لانے کی اجازت نہیں دیتے۔ باقی رہی بات کہ حکومت نے لنگر خانے کھول دیے ہیں تو یہ کام بحریہ ٹائون والا کب سے کر رہا ہے کہ کھائو اور کھلائو بھی۔ ویسے لوگ اس عمل سے مطمئن نہیں ہونگے کہ سب کام چور نہیں۔ کچھ کے لئے کام نکالیں۔ آپ یقین کیجیے کہ میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جسے میں نے اپنے اندازے کے مطابق ضرورت مند پایا کہ میں نے اسے ٹیلی فون پر اپنی ماں سے بات کرتے سنا۔ میں نے فجر کی نماز کے بعد اسے روکا اور کچھ پیسے اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا‘یار میرے کہنے پر اپنی ماں سے مل آئو۔ تم آج کل بے روزگار ہو۔ میری بات پر اسے کرنٹ سا لگا اور پیسے اس نے واپس میرے ہاتھ میں پکڑا دیے اور بولا سرجی میں کوئی لولا لنگڑا ہوں کوئی معذور ہوں۔ آپ کی مہربانی میں خود کماتا ہوں۔ آپ بتائیں کچھ میرے لائق ہو تو۔ میں تو اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ اس کی خودداری نے مجھے نہال کر دیا۔ خدارا آپ کوئی پراجیکٹ تو شروع کریں۔ آ پ نے ساری ڈویلپمنٹ روک دی ہے مجھے تو لاہور سارا اداس اداس نظر آنے لگا ہے۔ سڑکوں کے کھڈے تک پر کرنے کی کسی کو توفیق نہیں۔ میں سچ کہہ رہا ہوں کہ میں نے اپنے علاقے میں اپنے ووٹوں سے منتخب کرانے اور لانے والے ایم این اے اور ایم پی اے کی شکل تک نہیں دیکھی۔ وہ ہماری پی ٹی آئی کے ہیں۔ ن لیگ کے نہیں۔ خدا کے واسطے روکو‘ نہ مجھ کو رونے دو وگرنہ شعلہ دل سے دماغ جلتا ہے جو سوچتا ہوں وہ دل میں اترتا جاتا ہے عجیب شدت غم ہے کہ داغ جلتا ہے کیا کریں کچھ کتھارسزتو ہمارا بھی ہو ۔ ہم تو آپ کو لائے تھے ادارے درست کرنے کے لئے بند کرنے کے لئے نہیں۔ ہم تو آپ کو معیشت درست کرنے کے لئے لائے تھے۔ آپ نے وہ آئی ایم ایف کے حوالے کر دی۔ ہم تو آپ کو عوام کی دلجوئی کے لئے لائے تھے آپ نے انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ میں مایوس پھر بھی نہیں رہا مگر حالات کو آئینے خانے میں رکھنا میری ذمہ داری ہے اور امید بھی رکھتا ہوں: تم ہی نہ سن سکے اگر قصۂ غم سنے گا کون کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے