ہریانہ کی تیس سالہ ببیتا کماری پھوگاٹ سابقہ بھارتی پہلوان ہیں ،پہلے یہ اکھاڑے میں دھوبی پٹڑا مارتی تھیں اب گل کھلا رہی ہیں یہ مہیلا 2010،2014،2018ء کے دولت مشترکہ کھیلوں میںبھارت کے لئے کانسی،چاندی اور سونے کے تمغے جیت چکی ہے اور2012ء کی ورلڈ ریسلنگ چیمپئن شپ میں بھی کانسی کا تمغہ اپنے نام کرنے میں کامیاب رہی ہے ،بھارتی اداکار عامر خان کی فلم دنگل اسی کی زندگی پر بنائی گئی ہے لیکن یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی وہ اتنی مشہو ر اور ڈسکس نہیں ہوئی جتناپندرہ اپریل 2020ء کوان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اُگلے جانے والے متعفن الفاظ نے انہیں آج کردیا ہے ۔پانچ فٹ تین انچ کے چھوٹے سے قد کی اس خاتون کا کھیلوں کی اسپرٹ نے کچھ نہیں بگاڑا ۔کھلاڑیوں کو امن کا سفیر کہا جاتا ہے ان کے چاہنے والے سرحدوں کی لکیروںمیں تقسیم نہیں ہوتے لیکن ببیتا میں چھپی مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ نے امن کی سفارت کاری بھسم کردی ببیتا کماری نے سال بھر پہلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے لیکن ان کے گن اب کھلنے لگے ہیںببیتا نے پندرہ اپریل کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹرپر بھارت میں کورورناسے بھی بڑا مسئلہ مسلمانوں کو قرار دے دیا ،اس سے پہلے ببیتا مسلمانوں کے لئے ’’جاہل مسلمان سور‘‘ ((ignorant Muslim pigsجیسے الفاظ استعمال کرکے اپنی تربیت اور اند ر دہکتی متعصبانہ نفرت کا پتہ دے چکی ہیں۔ اس پر حیران نہ ہوں بھارت میں اس قسم کے کردار اب عام ہیںبھارتی فلم انڈسٹری کی مشہور اداکارہ کنگنا رناوت اور انکی بہن رنگولی چنڈل مسلم دشمنی میں مشہور ہیں ۔رنگولی چنڈل نے حال ہی میں تبلیغی جماعت والوں کو قطار میں کھڑا کرکے گولی مار دینے کا ٹوئٹ کیا تھا جس پر ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ معطل کر دیا گیا۔ کانگریس کی حکومت سیکولرزم کا بھرم رکھنے کی کچھ نہ کچھ کوششیں کرتی رہی ہو گی لیکن جب سے براہمنوں نے گجرات کے ’’چوکیدار‘‘نریندر مودی کوراج سنگھاسن پر لا بٹھایا ہے تب سے اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں عیسائیوں کا جینا دو بھر ہو گیا ہے۔ موجودہ متعصب سرکارنے نام ہی کا سہی سیکولرزم کا چولا اتا ر پھینکا ہے ،اچھے خاصے پڑھے لکھے اور جانے مانے لوگوں کے اند ر کا تعصب بھی اب انکی باچھوں سے بہہ رہا ہے۔سوشل میڈیا پر مسلمانوں اور خاص کر تبلیغی جماعت کو نشانہ بنایا جارہا ہے ،آل انڈیا ہندو مہا سبھا کے نائب صدر گگن بھاٹیہ اور مرکزی ترجمان آچاریہ پنکج نے مشترکہ بیان میں نریندر مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تبلیغی جماعت پر پابندی لگائیں او ر انکی تمام سرگرمیاںغیر آئینی اورغیر قانونی قراردیں۔ سوشل میڈیا پرمتعصبانہ ذہنیت رکھنے والے ہندوؤں اور بھارتی میڈیامیں گھسے ان کے سیوکوں نے ’’سماچار ‘‘ اور رپورٹنگ کی آڑ میں زہر اگل اگل کر مسلمانوں کے خلاف فضا بنادی ہے۔ مسلمانوں کو ’’وائرس بم ‘‘ اور ’’وائرس جہادی ‘‘ کا نام دیا جارہا ہے۔بھارتی دارلحکومت دہلی سے متصل بوانہ گاؤں کابائیس سالہ نوجوان محبوب علی اسی ردعمل کا شکار ہو کر منوں مٹی تلے جا سویا ہے۔محبوب علی تبلیغی جماعت کے ساتھ ڈیڑھ ماہ کے لئے بھوپال گیا تھا چندر وز پہلے ہی اس کی واپسی ہوئی تھی ،وہ باقاعدہ طبی معائنے اور ڈاکٹروں کی جانب سے کلیئر قرارر دیئے جانے کے بعد گھر پہنچا تھالیکن سوشل میڈیا پر کورونا وائرس کے حوالے سے دی جانے والی’’ آگاہی‘‘ کا پروپیگنڈہ کام کر گیا ،گاؤں کے ہندو اسے کھوجتے ہوئے کھیتوں میں پہنچ گئے اور مار مار کر اسکی جان لے لی ۔ سوشل میڈیاپر چلنے والی یہ مسلم کش مہم ہندو توا کے مقاصد پوری طرح سے پوری کرتی نظر آرہی ہے ، ایک بار پھر مسلم کش فسادات کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ تھوڑی دیرپہلے ہی میرے سامنے بھارتی ٹیلی وژن این ڈی ٹی وی(NDTV)کی ایک رپورٹ تھی،دہلی ،بلند شہر سمیت چار شہروں سے حاصل کی جانے والی اطلاعات او ر فوٹیجز کے بعد لگ بھگ پانچ منٹ کی یہ خصوصی رپور ٹ نشر کی گئی جس میں بتایا گیا کہ یو پی،دہلی سمیت کئی شہروں میں اب سبزیاں اور پھل بھی ہندو ،مسلمان ہو چکے ہیں۔غریب سبزی فروشوں سے سودا سلف لینے سے پہلے ان کا نام پوچھا جارہا ہے ، ان کی شناخت جانی جارہی ہے ،مسلمان سبزی فروشوں سے ہندو سبزی خریدنے کو تیار نہیں ہیں ،انہیں دھکے دے کر نکالا جارہا ہے ،اس رپورٹ میں دو فوٹیج بھی شامل ہیں جس میں ایک مسلمان سبزی والے کو اک شخص فوری طور پر محلے سے نکل جانے کے حکم دیتے ہوئے کہتا ہے۔ اپنا شناختی کارڈ ساتھ رکھوگے تو یہاں سبزی بیچو گے ،ایک دوسری وڈیو میں جاوید نام کا غریب پھیری والا مجبورا اپنا نام سنجے بتا کرگاہک نمٹاتے ہوئے پکڑا جاتا ہے ،جاوید اس لحاظ سے خوش قسمت رہا کہ اسے معافی تلافی پر فقط ڈانٹ ڈپٹ کر ہی چھوڑ دیا گیا ،این ڈی ٹی وی اپنی اس رپورٹ میں آگے چل کر مزید دکھاتا ہے کہ یہ حالات دیکھ کرہندو سبزی فروشوں نے اپنی ریڑھیوں پر ہندوؤں کے مذہبی بھگوا جھنڈے لگالئے ہیں تاکہ دور ہی سے ان کی شناخت ہوجائے اور ہندو گاہک ان سے ’’رام توری ،بھنڈی ‘‘ خرید سکیں ۔ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ ہندی کے پروفیسر اپو روآنندنے اسی حوالے سے ایک مضمون میں انکشاف کیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کورونا جہاد کے نام سے سازشی تھیوریاں پھیلائی جارہی ہیںایسی جعلی وڈیوپھیلائی گئی ہیں جس میں مسلمانوں کو سبزیوں اور پھلوں پر تھوکتے دکھایا گیا ہے ،یہ نفرت اوریہ امتیازی سلوک عوامی سطح کے ساتھ سرکاری سطح پر بھی اب اتنا نمایاں ہوچکا ہے کہ اسپتالوں میں مذہب کی بنیاد پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے وارڈ تک الگ الگ کر دیئے گئے ہیں۔انڈین ایکسپریس کے مطابق میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کا کہناہے کہ ریاستی حکومت کے فیصلے پر ہی ہندوؤں اور مسلمانوں کے الگ الگ وارڈ بنائے گئے ہیں ،دنیا میں مذہب کی تفریق پر غالبا یہ اس وقت تک کا پہلا اسپتال ہے یہ ساری صورتحال بتا رہی ہے کہ بھارتی مسلمانوں کے لہو سے بے موسمی ہولی کھیلنے کی تیاریاں زوروں سے جاری ہیں بلکہ شائد مکمل ہو چکی ہیں اسی لئے اگر معروف بھارتی مصنفہ اور صحافی ارون دھتی یہ کہے کہ بھارتی سرکارکورونا وائرس کی آڑ میں مسلم کش فسادات کی راہ ہموار کررہی ہے تو یقیننا غلط نہیں ہے سامنے لگ رہا ہے کہ ہندوستان کو’’ ہندو استھان ‘‘ بنانے کے خبط میں متبلا بھارتی حکومت اور کالی دیوی کے پجاری ایک بار پھر مسلمانوں کو بلی چڑھانے کی تیاریاں کر رہے ہیں !!