پہلے عزیز نبیل کے دو خوبصورت اشعار: آسیب سا جیسے میرے اعصاب سے نکلا یہ کون دبے پائوں مرے خواب سے نکلا جب جال سمیٹا ہے مچھیرے نے علی الصبح ٹوٹا ہوا اک چاند بھی تالاب سے نکلا لیجیے میرے معززیز قارئین: میں قطر میں انجمن محبان اردو ہند قطر کا سالانہ مشاعرہ پڑھنے کے لیے آیا ہوں بلکہ مشاعرہ تو 12اکتوبر کی رات ہو چکا۔ رات گئے تک تشنگان شعر و سخن ہمارے ساتھ جاگتے رہے‘ داد دیتے رہے اور داد پاتے رہے۔ میں بارہ اکتوبر جمعہ کے روز یہاں پہنچا تو اک خیال میرے ذہن میں کوندا کہ جس طرح جمعہ کا روز ن لیگ پر ہمیشہ بھاری رہا کہ ہر سزا اور ناپسندیدہ فیصلہ ان کا جمعہ کو آیا اسی طرح میں بھی بعض جگہ جمعہ کا سامنا کرتا رہا۔ یہ سب تو میں نے برسبیل تذکرہ کہہ دیا۔ عزیز نبیل‘ آصف شفیع اور ندیم ماہر مجھے لینے کے لیے ایئر پورٹ آئے تھے۔ اپنے ہوٹل پہنچے تو آکے بیٹھے ہی نہ تھے اور نکالے بھی گئے‘‘ بھارت سے آئے ہوئے ضیاء فاروقی‘ عرفان شاہ نوری اور مینا خان کے ساتھ ہم ایک شاندار ہوٹل میں پہنچے جہاں مشاعرے اور ہوٹل کے روح و رواں حسن چھوگلے ہمارے منتظر تھے۔ پتہ چلا کہ یہ عجزو انکسار کا پیکر تو ہوٹلوں کی چین کا مالک ہی نہیں بلکہ بھارت کے اثرورسوخ رکھنے والی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ پھر ان کے ساتھ گپ شپ چلی تو وہ ہم پر خوب کھلے۔ وہ قطر اور سعودیہ کے اختلافات سے بھارت اور پاکستان کے معاملات کے حوالے سے نہایت روانی سے تبصرہ کرنے لگے۔ کہنے لگے دیکھئے یہ افسوس ناک ہے کہ دو سال سے کسی قطری کو حج کرنے کی اجازت نہ ملی۔ انہوں نے بتایا کہ قطر میں بھارتیوں کی تعداد قطریوں سے کہیں زیادہ ہے اور وہ پوری یکجہتی کے ساتھ ہر میدان میں کامیاب ہیں۔ ان میں اکثریت مسلمانوں ہی کی ہے۔ وضع قطع میں وہی لکھنو اور دلی والا رکھ رکھائو بھی ہے اور گنگا جمنا تہذیبی انداز بھی۔ انہوں نے مجھ سے کئی سوالات کئے جن میں اہم عمران خان کے حوالے سے تھا۔ میں نے کہا خان صاحب کے بارے میں ایک بات طے ہے کہ وہ اتنے ایماندار ہیں کہ چاہیں گے بھی تو کرپشن کی طرف نہیں جا سکتے کہ وہ مزاج ہی کے دیانتدار اور ملک کے ساتھ مخلص ہیں۔ اتنے میں کھانا ہمارے سامنے آ گیا۔ بڑی بڑی رکابیوں میں سے بھاپ اٹھ رہی تھی ۔ چاولوں کو مٹن سے ڈھانپا گیا تھا۔ میں نے کہا قبلہ حسن چھوگلے صاحب یہ جو ہر مہمان کے سامنے رکابی ہے یہ تو تین چار لوگوں کے لیے کافی ہے۔ کہنے لگے آہستہ آہستہ یہ ایک گھنٹے میں ختم ہو جائے گا۔ میں نے کہا گھنٹہ تو اسے ٹھنڈا ہونے میں لگے گا۔ یہ ایسے یہ تھی جیسے ششلک ڈش ہوتی ہے پوری کوئی بھی نہ کھا سکا۔ دلچسپ چیز بعد میں آنے والی آئس کریم تھی لیجئے پگھل کر دھواں اڑا رہی تھی اور اوپر آئس کریم کے ٹھنڈے سکوپ تھے۔ چھوگلے صاحب کھانے کے بعد ہمیں نیچے تک چھوڑنے آئے۔ کمال مہمان نوازی۔ رات مشاعرے میں پہنچے تو وہاں صدارت بھی حسن چھوگلے کی تھی۔ ہم پہنچے تو ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ انجمن بہت بڑے مشاعرے بھی کرواتی ہے۔ چلیے یہاں بریک لے کر آپ کو آصف شفیع کے دو اشعار پڑھاتے ہیں۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ آصف شفیع پر زربفت کانمبر بھی شائع ہوا ہے جس کی نقاب کشائی اسی مشاعرے کے دوران ہوئی۔ آصف کے دو شعر: میرے اعدا سے کہو حد سے تجاوز نہ کریں یہ نہ ہو مجھ کو بھی شمشیر اٹھانی پڑ جائے دشت سے شہر میں کچھ سوچ کے آنا آصف زندگی بھر کی ریاضت پہ نہ پانی پڑ جائے اس مشاعرے میں کچھ لوکل شعرا نے بھی کلام سنایا۔ کچھ تو بہت اعلیٰ شاعر تھے اور مجھے انہیں سن کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ ندیم ماہر بہت اچھے شاعر تھے میں نے اسے کہا کہ کوئی مانے نہ مانے تم ماہر تو ہو۔ ماہر کا ایک شعر: میری آنکھیں تھک ہی نہ جائیں تجھ کو کب سے دیکھ رہا ہوں میرا خیال ہے کہ کالم ختم ہونے سے پہلے بھارت سے آئے مہمانوں کا ایک ایک شعر دیکھ لیں: کس نے دیکھی ہیں بتائو میری بھیگی پلکیں کون کہتا ہے تیرے غم کی حفاظت نہیں کی (مینا خاں) گر اناالحق کی صدا ہم نے لگائی ہوتی اتنی ہمت کفِ قاتل میں نہ آئی ہوتی (عرفان شاہ نوری) خود آگ لگاتا نہیں معصوم بہت ہے لگ جائے اگر آگ تو دیتا ہے ہوا اور (ضیا فاروقی) مجھے خوشی ہوئی کہ بہت سے دوست مجھے ملنے اور سننے آئے ۔ ان میں شوکت ناز بھی آیا۔ اپنی بیگم سے بھی ملایا۔ یہاں کچھ متحارب ادبی گروپ بھی ہیں۔ ان کے مابین مسابقت ادب کی ترویج کے لیے بہتری بھی ہے۔ ان کے سرخیل وضعداری میں مشاعرہ سننے بھی آئے ہوئے تھے۔ مجھے تو اتنا سنانا پڑا کہ تھک گیا اہل نظر نے بہت محبتیں دیں۔ چلیں دو تازہ اشعار میرے بھی برداشت کر لیں: مت شکایت کرو زمانے کی یہ علامت ہے ہار جانے کی مجھ کو دنیا رُلا کے چھوڑے گی یہی قیمت ہے مسکرانے کی میں ایک ہوٹل کے بالائی کمرے میں بیٹھا لکھ رہا ہوں۔ میری نظر کھڑکی سے باہر گئی تو لطف آ گیا کہ سورج کی کرنیں پھیلی ہوئی ہیں اور سامنے کی عمارت پر جانگلی کبوتر نظر آ رہے ہیں۔مشاعرہ میں شرکت کرنے والے دوسرے شعرا کے نام ہیں احمد اشفاق‘ اعجاز حیدر‘ ڈاکٹر ندیم جیلانی‘ عامر شکیب عثمانی‘ اشفاق ‘ راشد عالم راشد‘ رئیس ممتاز اور مشفق رضا نقوی۔ یہ بات اچھی لگی کہ کچھ لوگ شیروانی‘ پائجامہ اور ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔ دلی اور لکھنو کے مشاعروں میں یقینا ایسا ہی گیٹ اپ ہوتا ہو گا۔ محمد صبیح بخاری‘ محمد عتیق‘ عظیم عباس‘ ابراہیم کمال خان‘ خالد داد خان اسامہ شمسی اور ریاض منصوری وہ اصحاب ہیں جن کے باعث زبان اردو قطر میں زندہ اور ادب کی آبیاری ہو رہی ہے۔