بھارت کے چار ممتاز صحافیوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں نے حالیہ دنوں مقبوضہ کشمیرکا دورہ کیا۔ دورہ کرنے والے وفد میں اکانومسٹ سے وابستہ جین ڈیریز‘ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسٹ ‘ لینینسٹ)کی رہنما کویتا کرشن، آل انڈیا ڈیمو کریٹک ویمن ایسوسی ایشن کی میمونہ مُلا اور نیشنل الائنس آف پیپلز موومنٹس کے ومل بھائی شامل تھے۔ ان لوگوں نے مقبوضہ کشمیر کے دورے کے دوران جو کچھ دیکھا اور کشمیری عوام میں غصے کی شدت کو جس طرح محسوس کیا اسے ایک رپورٹ کی صورت میں ترتیب دیا۔14اگست کے روز انہوں نے نئی دہلی پریس کلب میں یہ رپورٹ تمام تصاویر اور حقائق کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی تو انہیں روک دیا گیا۔ روزنامہ 92نیوز کو اس وفد کی مرتب کردہ رپورٹ تک رسائی ملی اور ہم نے اپنے قارئین تک اس کا ترجمہ پہنچانے کا فیصلہ کیا۔ رپورٹ میں بعض تفصیلات مکرر مذکور ہیں تاہم ان کی افادیت کے پیش نظر رپورٹ کو من و عن شائع کیا جا رہا ہے۔ ٭ جب ہمارے جہاز کے سری نگر میں لینڈ کرنے پر ایئر لائن کے سٹاف نے یہ اعلان کیا کہ مسافر اب اپنے موبائل فون آن کر سکتے ہیں تو مسافروں (جن میں اکثریت کشمیریوںکی تھی) نے ایک زور دار قہقہہ بلند کیا اور کہا کہ یہ کیا لطیفہ ہے ہم نے سن رکھا ہے کہ 5اگست کے بعد سے وادی کے لوگوں سے موبائل فون لینڈ لائن فون اور انٹرنیٹ کی سہولت چھین لی گئی ہے اور سوشل میڈیا کو بھی بلاک کر دیا گیا ہے۔ ٭ جونہی ہم نے سری نگر کی سرزمین پر قدم رکھا راستے میں کھیل کے میدانوں میں چند بچوں کو کھیلتے دیکھا ہم ان کی آوازیں بھی سن سکتے تھے یہ بچے؟؟ ابلیس مودی ‘‘’’ابلیس مودی‘‘ کی آوازیں لگا رہے تھے ابلیس کا مطلب شیطان ۔ ٭ سری نگر میں جو الفاظ جموں و کشمیر کے بارے میںحکومتی فیصلے پر جوہمیں باربار سننے کو ملے وہ ظلم، زیادتی، دھوکہ اور غداری کے تھے۔ سری نگر کے مضافاتی علاقے سفاکاوال(Safakadal)کے علاقہ میں ایک شخص نے اس حوالے سے کہا کہ ہندوستان نے کشمیریوں سے غلاموں ایسا سلوک روا رکھا ہوا ہے۔ حکمران ایسے ہماری زندگیوں، ہمارے مستقبل کے بارے میں فیصلے کر رہے ہیں جیسے کہ ہمارے حلق میں زبردستی کوئی چیز ٹھونس دی جائے اور کنپٹی پر بندوق رکھ کر اسے نگلنے کا کہا جائے۔ ٭ سری نگر کی ہراس گلی ہر محلے ‘ قصبے ‘ گائوں ‘ دیہات ہم جہاں بھی گئے ہمارا عام شہریوں نے والہانہ استقبال کیا ان میں عام شہری سکول کے طالب علم بھی شامل تھے ان لوگوں سے بات چیت کے دوران ہمیں کشمیر کے تاریخ اور تنازع کے بارے میں بہت کچھ جاننے کو ملا۔ کشمیر کے عوام غصے سے بھرے پڑے تھے اور خوف زدہ بھی تھے کہ کس طرح بھارتی میڈیا تاریخ کو مسخ کر رہا ہے۔ بہت سوں کا ماننا تھا کہ آرٹیکل 370کشمیری قیادت اور ہندوستان کے درمیان ایک طرح کا معاہدہ تھا۔ کیا اس معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تھے ؟کہ کشمیر کسی صورت بھی بھارت کا حصہ نہ ہو گا؟ آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد بھارت کا کشمیر پر دعویٰ ہی ختم نہیں ہو گیا؟ لال چوک کے قریب جہانگیر چوک کے علاقے میں ایک شخص نے موجودہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 370کی حیثیت تو منگل سوتر (شادی کے موقع پر دلہن کو پہنایا جانے والا مقدس ہار) ایسی تھی اس کے خاتمے کے بعد کشمیر اور بھارت کا رشتہ بھی ختم ہو گیا ہے(کشمیرکے لوگوں کا آرٹیکل370اور 35-Aکی تنسیخی پر ردعمل ذیل میں بیان کیا گیا ہے)۔ ٭ کشمیر میں بھارتی میڈیا کے بارے میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے لوگ اپنے گھروں میں قید ہیں۔ ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کر سکتے سوشل میڈیا دوسرے ذرائع سے کسی طور پر آواز بلند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ وہ اپنے گھروں میں محصور بھارتی میڈیا کا یہ دعویٰ دیکھتے اورسنتے ہیں کہ بھارتی حکومت کے فیصلے کو کشمیری عوام کی جانب سے سراہا جا رہا ہے۔ کشمیری میڈیا کی طرف سے ان کی آواز کو مسخ ہوتے ہوئے بے بسی سے دیکھتے ہیں ایک نوجوان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کس کی شادی ہے اورکون ناچ رہا ہے؟(دعویٰ تو یہ کیا جا رہا ہے کہ ہمارے گھر شادی ہے مگر ناچ کوئی اور رہا ہے) اگر بھارت سرکار کا یہ فیصلہ کشمیریوں کی ترقی و خوشحالی اور مفاد میں ہے تو ہم سے کیوں نہ پوچھا گیا کہ آخر ہم کیا چاہتے ہیں؟ آرٹیکل 370اور 35Aکی تنسیخ پر ردعمل ٭ اننت ناگ ضلع کے ایک گائوں گوری میں ایک شخص نے کہا کہ ہمارا ان سے رشتہ 370اور 35A کے تحت تھا۔ اب انہوں نے اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی مار دی ہے۔ اب ہم آزاد ہو گئے ہیں۔ اب انہوں نے خود ہی آرٹیکل 370 تحلیل کر دیاہے۔ اب ہم آزاد ہیں اس شخص نے یہ نعرہ بھی لگایا ہم آزادی چاہتے ہیں اور اس نے آرٹیکل 370اور 35-Aکی بحالی کا نعرہ بھی لگایا۔ ٭ بہت سے کشمیریوں نے آرٹیکل 370اور 35-Aکو کشمیر کی پہچان قرار دیا کشمیری آرٹیکل 370کے تحلیل کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہ کشمیریوں کی عزت نفس اور شناخت پر حملے کے مترادف ہے۔ ٭ کشمیر کے لوگ نہ صرف آرٹیکل 370کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں بلکہ بہت سو ںکا کہنا ہے کہ یہ صرف پارلیمانی پارٹیاں ہی تھیں جنہوں نے لوگوں سے کہا تھا کہ وہ بھارت پربھروسہ کریں۔ بھارت آرٹیکل 370کی پاسداری کرے گا۔ بھارت کی طرف سے 370تحلیل کرنے کے بعد کشمیری عوام کا بھارت نواز پارٹیوں پر رہا سہا اعتماد بھی اٹھ گیا ہے اور ان لوگوں کا موقف درست ثابت ہوا جو کشمیر کی آزادی کی بات کرتے تھے باٹا مالو میں ایک شخص نے کہا جو لوگ بھارت کے گیت گاتے تھے وہ بھارتی ایجنٹ تھے مگر آج وہ بھی ہمارے ساتھ قیدی بنے ہوئے ہیں۔ ایک کشمیری صحافی کے خیال میں عام کشمیری بھارت نواز کشمیری قیادت کی گرفتاریوں اور نظر بندیوں پر بہت خوش ہے جو پارٹیاں بھارت سرکار کی حمایتی تھیں آج وہ رسوا ہو رہی ہیں۔ (جاری ہے)