الیکشن 2018ء آیا، ہوا اور گزر گیا۔2011ء سے میری رائے تھی کہ پی ٹی آئی ملک کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوسکتی۔۔ 2018ء میں تحریک انصاف نے ملک بھر کے الیکٹ ایبلز کو اپنی جماعت میں جمع کردیا۔ یوں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے الیکٹ ایبلز پی ٹی آئی میں جمع ہوئے اور امکان ہے کہ یہی ہم پر حکومت کریں گے۔ اب جبکہ اس جماعت کی حکومت بننے جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی سپورٹ کی جائے۔ آنے والی پارلیمان پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوئی ہے کہ وہ غور کرے کہ الیکشن میں ذمہ داری ادا کرنے والے اداروں پر سوال کیوں اٹھے۔ بطور پاکستانی قوم ہم ریاست پاکستان کے شہری اس کے ہر ادارے کے مالک ہیں۔ سو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنی پارلیمنٹ کے ذریعے پیدا شدہ صورتحال کے اسباب ہی نہیں بلکہ ذمہ داروں کا بھی تعین کریں اور ثابت کریں کہ ادارے افراد پر مقدم ہیں۔ ہرچند کہ مرکز اور پنجاب دونوں ہی جگہ حکومت سازی کے لئے جوڑ توڑ جاری ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی ہی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی مگر یہ سیاست ہے یہاں جب تک وزیر اعظم کا انتخاب نہ ہوجائے حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں ہوتا۔ میری رائے میں پی ٹی آئی کو مرکز اور پنجاب دونوں جگہ حکومت بنانے کا موقع دینا چاہئے۔ ایک تو اس لئے کہ متنازعہ سہی مگر مینڈیٹ اسی کے پاس ہے اور دوسری وجہ یہ کہ الیکشن کے موقع پر ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہ تھی جو اپنے لئے غیر تجربہ کار ڈرائیور تک رکھنے کے قائل نہیں لیکن حکومت جیسی قومی ذمہ داری کے معاملے میں ان کا خیال تھا ’’عمران کو بھی ایک بار آزما لینا چاہئے‘‘ سو چلئے اس بار عمران کو آزما لیتے ہیں تاکہ یہ بھی طے ہوسکے اقتدار کسی کو آزمائشی بنیاد پر دینا درست ہے یا غلط ؟ ہرچند کہ میری یہ رائے رہی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اس ملک کے لئے موثر ثابت نہیں ہوگی مگر جب موقع اسی کو ملنے لگا ہے تو میری دعا تو بس ایک ہی ہوسکتی ہے کہ اے پروردگار ! اس حکومت کو کامیاب فرما۔ میں اب اس کے سوا کوئی اور دعا مانگ ہی نہیں سکتا کیونکہ اگر یہ حکومت ناکام ہوئی تو نقصان پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ مجھ سمیت اکیس کروڑ شہریوں کا ہوگا۔ اگر سیاسی اختلاف کی بنیاد پر میں یہ آرزو پالوں کہ جنہیں میں نے ملک کے لئے نقصان دہ بتا رکھا ہے وہ ملک کے لئے نقصان دہ ہی ثابت ہوں تو مجھ سے بڑا اس ملک کا کوئی دشمن اور بدخواہ ہوسکتا ہے ؟ میں آج بھی نون لیگ کا حامی ہوں مگر اس جماعت کا حامی 2013ء میں شہباز شریف کی کار کردگی کی بنیاد پر بنا تھا اور اس الیکشن میں پہلی بار نون لیگ کو ووٹ دیا تھا۔ الحمدللہ نہ صرف 2013ء کے بعد کی کارکردگی سے بھی نوے پچانوے فیصد مطمئن ہوں ۔یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ میں نون لیگ کے کاغذی منشور سے اس جماعت کا حامی نہیںبنا بلکہ ’’کارکردگی‘‘ سے حامی بنا تو اگر عمران خان کار کردگی میں نون لیگ سے بھی آگے نکل جائیں تو میں کیوں نہ ان کی حکومت کا حامی بنوں گا ؟ مجھے تو کارکردگی چاہئے، اگر کارکردگی ہوگی تو میں لازماً ان کی بھی حمایت کروں گا مگر اس کے لئے اس جماعت کو اگلے پانچ سال میں کار کردگی کے حوالے سے نون لیگ سے آگے نکل کر دکھانا ہوگا۔ ایک مخالف کی حیثیت سے اسے کار کردگی پر ابھارنے کے لئے میرا دعویٰ اب بھی مسلسل یہی ہوگا کہ نہیں ! یہ ڈیلیور نہیں کر سکتے، یہ تو نکمے اور ناتجربہ کار لوگ ہیں وغیرہ وغیرہ مگر میرا دیانتدار شہری ہونا مجھ سے یہی تقاضا کرتا ہے کہ حکومت زرداری کی ہی کیوں نہ ہو میں اس کی کامیابی کی دعا کروں کیونکہ کسی بھی حکومت کی ناکامی میرے وطن کا نقصان ہے۔ ہم نے پچھلے ستر سال میں کمایا کم ہے اور نقصان زیادہ کیا ہے سو ہم میں سے ہرشخص کو کمائی میں برکت کے لئے بہت بڑی بیقراری ہونی چاہئے۔ اگر عمران خان کی حکومت نے اپنے مجھ جیسے مخالفین کے اندازے غلط ثابت کردئے اور کچھ کر دکھایا تو خدا علیم ہے اس کی بے اندازہ خوشی ہوگی۔ لیکن اگر خدانخواستہ یہ حکومت ناکام ہوئی تو یہ صدمہ بھی بہت بھاری ہوگا کہ ہم نے سمجھایا بھی تھا کہ حکومت کرنا ان کے بس کا کام نہیں لہٰذا قوم کے پانچ سال برباد نہ کئے جائیں مگر ہماری نہ سنی گئی اور قیمتی وقت ہی نہیں بلکہ خطیر سرمایہ بھی برباد کردیا گیا۔ تب اگر زندہ رہے تو اس حکومت کو بھی قلم کی سولی پر چڑھانے میں غفلت نہ برتیں گے۔