قائد اعظم اور بُلھے شاہ جیسی عظیم شخصیات کو سیکولر ثابت کرنے والوں کا کمال یہ ہے کہ وہ ایک خاص قسم کے لباس، بود و باش، ذوقِ طعام، حصولِ علم کی جدوجہد اور وضع قطع کو پہلے خود ہی سیکولر قرار دیتے ہیں اور پھر اس سانچے میں جس شخصیت کو چاہیں فِٹ کر دیتے ہیں۔ سیکولر اور لبرل ازم کا جدید تاریخ میں واضح اظہار آج سے ڈھائی سو سال قبل مئی 1789ء میں ’’انقلابِ فرانس‘‘ کے آس پاس ہوا تھا۔ تمام بڑے بڑے سیکولر اور لبرل ازم کے فلسفی اسی دور میں پیدا ہوئے اور انہوں نے بنیاد پرست، شدت پسند عیسائی کلیسا اور اس کے زیرِ اثر بادشاہوں کے خلاف علمی اور نظریاتی کاوشوں کا آغاز کیا جو بعد میں ایک خونی انقلاب میں ڈھل گئیں۔پیرس اور اس کے گرد و نواح کے علاقے اس انقلاب کا مرکز تھے۔ میرے یہ ’’صاحبانِ علم‘‘ اور بزعمِ خود مسندِ حکمت و دانائی پر متمکن دانشور بتا سکتے ہیں کہ سیکولرازم کے حامی اور مخالف افراد کی طرزِ زندگی اور بود و باش میں کونسے نمایاں فرق تھے۔ دونوں گروہوں کے افراد اپنے زمانے کی مغربی تہذیب میں زندہ تھے اور ایک جیسی زندگی گذار رہے تھے۔ جو لباس بادشاہ ’’لوئی‘‘ کے درباری اور چرچ کی ہفتہ وار عبادت میں شریک عام ’’مذہبی‘‘ انتہا پسند استعمال کرتے تھے، ویسا ہی لباس والٹیئر، روسو اور انقلابی رہنما رابس پیری بھی پہنتے تھے۔ جیسی میزوں پر بیٹھ کر، جس طرح کے چمچوں کانٹوں اور نیپکن سے اور جس طرح کا کھانا اور جیسی شراب چرچ کا’’ شدت پسند‘‘ مذہبی طبقہ استعمال کرتا تھا، انقلابیوں اور سیکولروں کے گھر میں بھی سب کچھ ویسا ہی تھا۔ دونوں طبقے ایک جیسے سگار پیتے تھے، ایک طرح کے کلبوں میں جاتے تھے اور ایک ہی جیسے اوپیرا اور تھیٹر کے ٹکٹ خریدتے تھے۔ شانزے لیزے پر چلتے ہوئے کوئی شخص ایک سیکولر انقلابی اور شدت پسند عیسائی میں تمیز نہیں کر سکتا تھا۔سیکولر لبرل اور روشن خیال نظریے کے ’’جدِ امجد‘‘ والٹیئر کی تصویر اور فرانس کے بادشاہ لوئی 16(جس کا سر سیکولر انقلابیوں نے کاٹا تھا) کی تصویر ایک ساتھ رکھیں تو لباس، وضع قطع، بالوں کی تراش خراش، غرض کسی بھی معاملے میں آپ کوفرق محسوس نہیں ہوگا کہ کون سیکولر ہے اور کون چرچ کا نامزد کردہ بادشاہ۔لیکن ہمارے ہاں کج بحثی اور جہالت کا عالم یہ ہے کہ نظریے کو ظاہری لباس، بود و باش اور وضع قطع سے ناپا جاتا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سطحی علم نے ان لوگوں کے ذہنوں میں ایک تصور دماغ میں راسخ کر دیا ہے کہ مغربی تہذیب و تمدن ہی دراصل لبرل ہے اور اس میں رہنے والا ہر شخص سیکولر اور لبرل بھی ہے۔میرے ملک کے ان عظیم دانشوروںکی حالت بالکل ستر کی دہائی سے پہلے کے ان سادہ لوح ان پڑھ دیہاتیوں والی ہے جو کسی بھی شخص کو عربی لباس میں دیکھ لیتے تھے تو اس کو مقدس و محترم اور برگذیدہ سمجھ کر ہاتھ چومنے لگتے تھے۔ یہ تو عرب دنیا میں تیل نکلنے کی وجہ سے ہونے والی ترقی کا اعجاز ہے کہ میرے ملک کا یہ سادہ لوح ان پڑھ دیہاتی طبقہ مزدوری کرنے وہاں پہنچا تو انہیں اندازہ ہوا کہ ایک بغیر داڑھی ، پینٹ کوٹ پہننے اور ٹائی لگانے والا عرب عالم ’’سید قطب شہد‘‘ سیکولرازم کے مقابلے میں ایسی برہنہ تلوار ہے کہ اس کی کتب اور اس کی ’’تحریکِ اخوان المسلمون‘‘آج بھی نہ صرف عرب دنیا بلکہ پوی مسلم دنیا میں اُٹھنے والی سیکولر لبرل ، حتیٰ کہ کیمونسٹ تحریکوں کا مدلل جواب بھی ہے اورایک تحریک کی علامت بھی، جبکہ عربی لباس پہنے، سروں پر رومال سجائے، بیشمار عرب باشندے ایسے ہیں جن کی وضع قطع سے آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ خالص مسلمان ہیں،مگران کے دم قدم سے بینکاک، بیروت اور یورپ کے مخصوص ’’بازار‘‘آباد ہیں۔ میرے ملک کا دیہاتی آدمی تو سمجھ گیا ،لیکن عظیم دانشوروں کو کسی علاقے کا سفر یا کسی تہذیب کا مطالعہ بھی اپنی کج بحثی اور ایسے ’’جہلَ مرکب‘‘ سے باز نہیں رکھ سکا۔ ان دانشوروں، ادیبوں، کالم نگاروں اور بزعمِ خود فلسفی تاریخ دانوںکے بارے میں کبھی کبھی مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ اگر انہیں مسلمانوں کی سید الانبیاء ﷺ اور ان کے صحابہؓ سے عشق اور والہانہ محبت کی وجہ سے ردِ عمل کا خوف نہ ہوتا تو یہ ’’عظیم‘‘ کالم نگار نما دانشور نعوذ باللہ سید الانبیاء ﷺ اور ان کے جلیل القدر صحابہؓ کو بھی محض لباس اور بود و باش اور وضع قطع سے لبرل اور سیکولر ثابت کر دیتے ۔کیونکہ ان کے نزدیک تو پیمانہ ہی یہی ہے۔ جبکہ اسلام ایک مسلمان کے تمام اعمال کی بنیاد ہی نیت پر رکھتا ہے اور اللہ کے نزدیک ایمان کی شرطِ اوّل ’’اقرار باللسان‘‘ (زبان سے اقرار) اور ’’تصدیق بالقلب‘‘( قلب سے تصدیق) ہے۔ تاریخِ اسلامی کا اہم ترین معرکہ ’’یومَ بدر‘‘ ہے جسے میرے اللہ نے ’’یوم الفرقان‘‘ یعنی حق و باطل میں تمیز کا دن قرار دیا ہے۔ میدانِ بدر میں مسلمانوں اور مشرکین ِ مکّہ کی ظاہری بود وباش اور ظاہری وضع قطع کابغور مطالعہ کر لیں تو آپ کو ’’ایمان‘‘ کے سوا ان میں بظاہر کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔ دونوں لشکروں کے پاس جو اسلحہ تھا، جن میں تلواریں، تیر اور زرہیں شامل تھیں وہ ان علاقوں سے برآمد شدہ تھیںجو رومن ایمپائر کے زیرِ تسلط تھے، جیسے بلادِ شام وغیرہ۔ بدر کے مسلمان صحابہؓ اور کفارمکّہ کے بدن پر جو لباس تھے وہ دو علاقوں سے اس خطے میں درآمد کیے جاتے تھے۔ ایک یمن جہاں ’’ذوالخصلہ‘‘ نام کا بہت بڑا بت تھا جس کی پرستش ہوتی تھی اور جسے ’’کعبۃ الیمانیہ‘‘کہا جاتا تھا اور دوسرامصر کے دریائے نیل کا قرب و جوار جہاں فراعینِ مصر سے لے کراب تک شرک اور کفر نے ہی ڈیرے جما رکھے تھے۔ فلسطین میں آباد رومی بھی کپڑا بننے کا کام کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے آپ کو احادیث میں شامی اور یمنی چادروں کا ذکر ملے گااور کسروانی قباؤں کا تذکرہ۔مسلمانوں کے لشکر میں صحابہ کرام کے پاس جو کرنسی تھی وہ بھی رومن تھی اور مشرکینِ مکّہ بھی جو درہم و دینار جیب میں لیئے پھرتے تھے، وہ بھی روم کے ہی تھے۔ لباس، وضع قطع، سامانِ حرب، خوراک، بود و باش، یہاں تک کہ چہرے پر داڑھیوں اور سروں پر خود اور عماموں میں بھی کوئی بظاہر فرق نظر نہیں آتا تھا۔ یہاں تک کہ گھوڑے بھی یمن اور عمان سے منگوائے جاتے تھے، جو ایرانی سلطنت کا حصہ تھے اور وہاں گھوڑے ایرانی اور ترکی نسل کے ہی تھے۔یہ تو بعد میں ان کے اشتراک سے عربی گھوڑوں کی نسل وجود میں آئی۔ یہ گھوڑے اپنے زمانے کی بکتر بند گاڑی یا تیزرفتار جنگی ٹرانسپورٹ تھی جونہ مسلمان ٹیکنالوجی تھی نہ مشرک۔ اس ظاہری مماثلت کے باوجود عرب کے جاہل بدو بھی میرے ملک کے ان دانشوروں سے زیادہ عقل و دانش رکھتے تھے کہ وہ’’ ایمان و کفر‘‘ یا ’’سیکولرازم اور مذہب‘‘ کے درمیان فرق یا امتیاز ظاہری بود و باش یا وضع قطع سے نہیںبلکہ نظریے سے کرتے تھے۔یہ نظریہ ہی تھا ہے، جس نے’’ میدانِ بدر‘‘ میں ایک ایسا معرکہ برپا کیا جو قیامت تک حق و باطل کی علامت بن گیااور یہی نظریہ تھا جس نے چودہ سو سال بعد برصغیر پاک و ہند کو ایسے تقسیم کیا کہ ایک دادا کی اولاد، ایک طرح کا ساگ کھانے ، ایک جیسا بھنگڑا ڈالنے، ہیر گانے اور ڈھول بجانے والے پکار اُٹھے یہ ہمارا نسلی خون ہیں لیکن ہمارے بھائی نہیں ہیں، ہم ان کے ساتھ نہیں رہتے کیونکہ یہ کلمہ طیبہ نہیں پڑھتے۔یہی نظریہ تھا جس کے تحت یہ خطہ تقسم ہوا ، دس لاکھ انسانوں کا خون بہا اور ایک ایسا ملک وجود میں آیا جو آج تک ان سیکولر لبرل لوگوں کے گلے کی ہڈی ہے۔ یہ نظریہ اور اس نظریاتی تقسیم کی قیادت میرے عظیم دانشوروں کی نظر میں ان کے نظریے کے مطابق بو دو باش سے سیکولر نظر آنے والے قائد اعظمؒ نے کی تھی۔ جہالت اور کج بحثی کی اس سے عمدہ مثال نہیں دی جا سکتی۔