سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے چیمبر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مابین قانون سازی پر خوش آئند پیشرفت ہوئی ہے۔ حکومت نے نیب آرڈی ننس واپس لے لیا ہے۔ جبکہ حزب اختلاف 9آرڈی ننسز پر حکومت کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہوئی ہے۔ پہلے سے منظور 9میں سے 3آرڈی ننس منظور تصور ہوں گے جبکہ 6میں سے 4دوبارہ ایوان سے منظور کرائے جائیں گے جو دو آرڈیننس باقی بچیں گے ان کے بل قائمہ کمیٹی میں بھجوا کر ترامیم کے ساتھ منظور کرائے جائیں گے۔ نیب آرڈیننس میں اپوزیشن کی تجاویز کو شامل کر کے ایوان میں پیش کیا جائے گا۔ آرمی ایکٹ میں ترامیم کا بل ایوان زیریں اور ایوان بالا میں جس مفاہمانہ فضا میں منظور ہوا اس نے پارلیمانی نظام کی کارکردگی سے مایوس ہوتے طبقات کو ایک بار پھر پرامید بنا دیا ہے۔ قوم چاہتی ہے کہ تمام ادارے دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی سے زیادہ اپنے کام پر توجہ دیں۔ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی سب جماعتیںاس موقف کا اظہار کرتی رہی ہیں کہ جمہوری نظام پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کئے بغیر ممکن نہیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کا مطلب عوام کے منتخب نمائندوں کی رائے کو قومی معاملات میں اولیت دینا ہے۔ عوام کے نمائندے انتظام حکومت‘ معاشی و خارجہ امور‘ دفاعی معاملات‘ سفارتی کوششوں‘ محروم طبقات کی بحالی‘ امن و امان‘ تفریح و ثقافت اور تعلیم و صحت کی سہولیات کے متعلق اپنا موقف پیش کرتے ہیں۔ کسی علاقے میں خلاف آئین و قانون معاملہ دکھائی دے تو اس پر بھی پارلیمنٹ میں بات ہو سکتی ہے۔ اراکین پارلیمنٹ اگر ان اہم امور میں ماہرانہ معلومات کے مالک نہ ہوں تو پارلیمنٹ کی بالادستی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا۔ یہ بھی سچ ہے کہ قوم اپنے نمائندوں سے بھلے اعلیٰ اخلاقی معیاروں پر عمل پیرا ہونے کا مطالبہ کرے لیکن اگر شہریوں کی اکثریت ان معیاروں کے مطابق زندگی نہیں گزارتی تو اراکین بھی اسی رنگ میں رنگے نظر آئیں گے۔ 2014ء میں تحریک انصاف نے دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ قومی اسمبلی میں بھی کیا گیا۔ اس وقت کی حکومت نے اس پر کان نہ دھرا اور پھر پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے 126دن تک دھرنا دیا گیا۔ پارلیمنٹ میں موجود تمام حکومتی و اپوزیشن جماعتوں نے تحریک انصاف کو کہا کہ وہ معاملے کو ایوان سے باہرلے جا کر پارلیمنٹ کی بالادستی کو دائو پر نہ لگائے۔ اس پر تحریک انصاف ایوان میں واپس آئی۔ دھاندلی کی تحقیقات پر مکمل کام تو نہ ہوا مگر جن چار حلقوں کے ووٹوں کی پڑتال کا مطالبہ کیا گیا تھا وہ حلقے کھول دیے گئے۔ انتخابی اصلاحات پر بھی دونوں جانب سے مفید تجاویز کا تبادلہ ہوا جن میں سے چند قانونی مسودے میں شامل کر لی گئیں۔تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تو اس کے ایجنڈے میں سرفہرست بلا امتیاز احتساب تھا۔ قانون نافذ کرنے والے اور احتساب سے متعلق اداروں کو آزادی دی گئی کہ وہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے افراد کے خلاف کارروائی کریں۔ پہلے مرحلے میں ان مقدمات پر تحقیقات مکمل کرنے کا کہا گیا جو کئی برس سے فائلوں میں دبے آ رہے تھے۔ اپوزیشن جماعتوں کے لگ بھگ تمام مرکزی سیاستدان اس حساب سے ملزم تھے۔ اداروں نے سیاسی مداخلت ختم ہونے پر جب کارروائی شروع کی تو اسے سیاسی انتقام کا نام دیا جانے لگا۔ حکومت کو سلیکٹڈ ہونے کا طعنہ ملنے لگا اور عمران خان کو بے اختیار وزیر اعظم کہہ کر ان کے مینڈیٹ کو مجروح کیا جانے لگا۔ کئی بار برسراقتدار رہنے والی جماعتوںنے نچلی سطح پر ہر شعبے میں اپنی تنظیموں کو متحرک کیا۔ تاجر اور سرکاری افسران واضح طور پر حکومتی فیصلوں میں رکاوٹیں کھڑی کرتے نظر آئے۔ حکومت کو ٹیکس جمع کرنے اور انتظامی سطح پر اس قدر دشواریاں پیش آئیں کہ آخر اسے نیب کا ترمیمی آرڈی ننس لانا پڑا جس میں تاجروں اور اعلیٰ سرکاری افسران سے تحقیقات کو نیب کے دائرہ کار سے خارج کر دیا گیا۔ اس آرڈیننس کے بارے میں اپوزیشن کا کہنا تھا کہ یہ حکومت نے اپنے بعض ساتھیوں کو بچانے کے لئے منظور کیا۔ بہرحال حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تازہ مفاہمانہ اجلاس میں طے پایا ہے کہ یہ آرڈی ننس واپس لیا جائے گا اور حکومت اپوزیشن کی ترامیم کے ساتھ آرڈیننس پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔ حکومتی امور چلانے کے لئے نئی قانون سازی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں صورت حال یہ رہی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں کسی نئی قانون سازی کے عمل میں شامل نہیں ہو رہی تھیں۔ قومی اسمبلی کا ہر اجلاس گرفتار افراد کو بے گناہ ثابت کرنے کی تقریروں سے شروع ہوتا اور گالی گلوچ اور مخالفانہ نعروں کے شور میں ختم ہوتا رہا ہے۔ اپوزیشن کے عدم تعاون کے باعث حکومت نے صدارتی آرڈیننسوں کا سہارا لیا۔ یہ آرڈی ننس اس تواتر سے جاری ہوتے رہے کہ اپوزیشن ارکان آرڈیننس فیکٹری چالو ہونے کا طعنہ دیتے۔ یہ امر قابل تعریف ہے کہ حزب اختلاف اور حزب اقتدار نے قوم کا وقت ضائع کرنے کی روش بدلنے پر اتفاق کیا ہے مگر اس مفاہمانہ فضا کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہونا چاہیے کہ بلا امتیاز احتساب کا عمل کسی سیاسی مصلحت پر قربان ہو جائے۔ عوامی سطح پر یہ تاثر بھی ناخوشگوار ہو گا کہ سیاستدان ایک دوسرے کو بچانے کے لئے مفاہمت پر آمادہ ہو جائیں‘ پاکستان جس خطے میں واقع ہے وہ بڑی طاقتوں کی مسلسل مداخلت کے باعث حساس سکیورٹی مسائل کا شکار ہے‘ بھارت کی اشتعال انگیزی دوسرا چیلنج ہے‘ پاکستان کو معاشی سطح پر مضبوط بنانا الگ سے توجہ طلب معاملہ ہے۔ ملک میں غربت اور مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ انصاف ملنا مشکل ہو چکا ہے۔ ان مسائل سے دوچار اہل پاکستان کی آرزو ہے کہ پاکستان میں پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہو اور اراکین پارلیمنٹ ریاستی اور عوامی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔