کارزارِ حیات میں کامیابی جہدِ مسلسل سے وابستہ ہے ۔ صرف و ہی افراد اور قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جو زبانی جمع خرچ کی بجائے عمل پر یقین رکھتی ہیں ۔ بلند بانگ دعوے ، خود پسندی اور لمبی چوڑی باتیں جب عمل سے خالی ہوں تو ندامت ، حسرت اور ناکامی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔ قول و فعل میں ہم آہنگی اور مطابقت انسان کے دیانتدار اور سچا ہونے کی علامت ہے ۔ ایسا شخص معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور قابلِ تقلید سمجھا جاتا ہے ۔ جبکہ اس کے برعکس وہ شخص جس کے قول و فعل میں تضاد ہو جو کہتا کچھ ہو اور کرتا کچھ وہ خود اپنے آپ کو جھٹلا رہا ہو تا ہے ۔ لوگ اس کی باتوں پر بھروسہ نہیں کر تے ۔ قول و فعل میں تضادکو اگر جھوٹ اور منافقت کا مجموعہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ اسلام میں قول و فعل کے تضادکی مذمت بڑے واضح انداز میں کی گئی ہے ۔ اہلِ ایمان کو نہ صرف اس سے باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ یہ اﷲ تعالی کی طرف سے بہت بڑی ناراضگی کا باعث بھی ہے ۔ سورۃ الصف کی دوسری اورتیسری آیت میں ارشادِ خداوندی ہے : ’’اے ایمان والو! تم کیوں ایسی بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ۔ بڑی ناراضگی کا باعث ہے اﷲ کے نزدیک کہ تم ایسی بات کہو جو کرتے نہیں ہو ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ قول و فعل کا تضاد کوئی معمولی جرم نہیں بلکہ رب تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے ۔ آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی کے لیے ’’مَقْت’’ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ مفسرین نے وضاحت کی ہے کہ مقت سے مراد حد درجہ کا بغض ہے خصوصاً وہ بغض جو کسی ناپسندیدہ حرکت کی وجہ سے ہو ۔ اس سے بڑھ کر قول وفعل میں تضاد کی اور کیا مذمت بیان کی جا سکتی ہے کہ یہ عمل اﷲ تعالی کی حددرجہ ناراضگی کا باعث ہے ۔ قول و فعل کے تضاد سے بچنا حددرجہ احتیاط کا تقاضا کرتا ہے اور انسان کوئی بھی بات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے ۔ اسی احتیاط کے متعلق علامہ اقبال نے کہا تھا : یہ شہادت گہِ الفت میں ہے قدم رکھنا لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا ویسے تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قول و فعل میں مطابقت پیدا کرے تا کہ وہ اﷲ تعالی کی ناراضگی سے محفوظ رہ سکے لیکن وہ لوگ جو دعوت وتبلیغ سے وابستہ ہیں ان کی ذمہ داری اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے ۔ یہی وہ واعظین اور خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلاتے اور برائی سے روکتے ہیں اور لوگ ان کی باتیں توجہ سے سنتے ہیں ۔ حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شبِ معراج میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ہونٹ آ گ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے ۔ جب ہونٹوں کو کاٹا جاتا تو وہ پھر پہلے کی طرح درست ہو جاتے ۔ میں نے پوچھا : اے جبریل ! یہ کون لوگ ہیں ؟جبریل نے کہا : یہ آپ کی امت کے خطباء ہیں جو کہتے ہیں کرتے نہیں جو کتاب اﷲ کی تلاوت کرتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے ۔ (مسند امام ) حدیث ِ پاک میں سنائی گئی یہ وعید ان واعظین اور خطباء کیلئے چشم کشا ہے جن کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے ۔ صرف خطباء کیلئے ہی نہیں بلکہ ان تمام افراد کے لیے بھی جو کسی بھی طرح سے دعوت و تبلیغ سے وابستہ ہیں ۔ قول و فعل کا تضاد ہمیں ہر جگہ نظر آتا ہے ۔ ہم اپنی نجی زندگی میں بہت سی باتیں کرتے ہیں جن پر ہمارا عمل نہیں ہوتا لیکن دوسروں کے لیے ہم بڑے اچھے ناصح ہوتے ہیں ۔ ہمارے ہاں منعقد ہو نے والے بہت سے اہم سیمینارز کا حال بھی زیاد ہ مختلف نہیں ۔ جن موضوعات پر یہ تقریبات منعقد ہو تی ہیں ان کا عملی مظاہر ہ دیکھنے میں نہیں آتا ۔ عبیرِ بوذری مرحوم نے بہت خوب کہا تھا : اجلاس کا موضوع تو ہے اخلاص و مروت بد خوئی میں مصروف ہیں حضرات مسلسل قول و فعل میں تضاد کا صرف یہ مطلب ہی نہیں کہ انسان دوسروں کو تو نصیحت کرتا ہو اور خود اس پر عمل نہ کرتا ہو بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسان خود اپنے بارے میں بڑے بڑے دعوے کرتا ہو کہ اگر مجھے موقع ملے تو میں یوں کردوں گا لیکن وقت آنے پر وہ میدانِ عمل سے کنارہ کشی اختیار کرلے ۔ لاف زنی کرنے والے اور شیخی بگھارنے والے افراد کے ہاتھ میں ندامت اور حسرت کے سوا کچھ نہیں آتا ۔ انسان کو چاہیے کہ وہ بڑے بڑے دعوے کرنے سے گریز کرے اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کچھ کر کے دکھائے ۔ علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ نے بندۂِ مومن کی صفات بیان کرتے ہوئے کہا تھا: نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز یعنی بندۂِ مومن وہ ہوتا ہے جو گفتگو بڑی نرمی سے کرتاہے اور جب کا م کی باری آتی ہے تو بڑی گرمجوشی سے کام کرتا ہے ۔ جب قول و فعل میں تضاد پیدا ہو جاتا ہے تو انسان باتوں میں تو بڑے جوش و جذبے کا مظاہر ہ کرتا ہے لیکن اس کا جذ بہ عمل سرد پڑ جاتا ہے ۔یہی بے عملی ذلت و رسوائی تنزلی اور پستی کا سبب بنتی ہے ۔ترقی اور عزت و کامرانی ہمیشہ انہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے جن کے حوصلے بلنداور عزم پختہ ہو اور وہ فقط باتیں بنانے والے نہ ہوں بلکہ کام پر یقین کرتے ہوں ۔ شاہراہِ حیات پر کامیابی سے چلتے ہوئے منزلِ مقصود کا پا لینا تبھی ممکن ہے جب انسان محنت کو اپنا شعار بنائے اور غفلت اور سستی کی چادر اتار پھینکے ۔ انسان ہمیشہ اپنی کارکردگی سے ہی دوسروں کو متاثر کرسکتا ہے لمبی چوڑی باتوں اور بلند بانگ دعووں سے کسی کو متاثر نہیں کیا جا سکتا ۔الغرض انسان کو چاہیے کہ وہ گفتار کا غازی بننے کی بجائے کردار کا غازی بنے ۔ علامہ اقبال مرحوم نے کہا تھا : محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند