شام کے قریب جہاں کھانے پینے اور سودا سلف کی دکانوں پر رش بڑھ جاتا‘ وہیں ہمارے محلے میں قائم ایک دکان نما لائبریری پر بھی نوجوانوں کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا‘ جو رات بھر کی مصروفیت کے لئے کوئی ناول یا رسالہ لے جانا چاہتے تھے۔ اس طرح کی دکانیں اس دور میں ’’آنہ‘‘ لائبریریاں کہلاتی تھیں۔’’آنہ‘‘ دراصل ایک سکہ تھا جو ایک روپے کا سولہواں حصہ ہوتا تھا۔ چونکہ ابھی تک اعشاری نظام نہیں آیا تھا۔ اس لئے ایک روپے کے چونسٹھ پیسے ہوتے‘چار پیسوں کا ایک آنہ‘ دو آنوں کی ایک دوّنی‘ چار آنوں کی ایک چوّنی آٹھ آنوں کی ایک اٹھنّی اور دو اٹھنیوں کا ایک روپیہ ہونا تھا۔ روپے کی شکل تو بچوں نے بہت ہی کم دیکھی ہوتی تھی، عموماً عید کے روز عیدی ملنے پر سب ملا کر کہیں ایک یا دو روپے بنتے تھے۔ اعشاری نظام آیا تو روپیہ سو پیسوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ آنے کی شکل و صورت پر دس پیسے ’’چونی‘‘ کی شکل و صورت والے سکے پر 25پیسے اور اٹھنی کی شکل والے سکے پر 50پیسے لکھ کر ’’سکہ رائج الوقت‘‘ جاری کیا گیا تاکہ لوگ کسی الجھن کا شکار نہ ہوں یوں مدتوں لوگ دس پیسے والے سکے کو ’’آنہ‘‘ ہی کہتے رہے۔ یہ ’’آنہ‘‘ دراصل لائبریریوں کے ہاں ایک کتاب کا ایک دن کا کرایہ ہوتا تھا۔ یہ دکانیں یا آنہ لائبریریاں چونکہ عام دکانوں کی طرح دیر تک کھلتی تھیں‘ اس لئے ان پرمعمول کا ہی رش ہوتا۔ مگر 1965ء کی جنگ میں بھارت کی سرحد کے پڑوسی اضلاع کے شہروں اور قصبوں میں رات بھر ’’بلیک آئوٹ‘‘ رہتا اور گلیوں میں ایک طرح کرفیو کا سماں ہوتا تھا۔ اس لئے لوگ خصوصاً بچے اور نوجوان رات بھر کے سامان کے لئے ان لائبریریوں سے کرائے پر کتابیں لے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ شام کے اس پاس ان پرہجوم بڑھ جاتا۔ ستمبر 1965ء کی سترہ روز جنگ ایک ولولہ انگیز تجربہ ہے۔ رات کے بلیک آئوٹ کے لئے کسی حکومتی اہلکار کو سختی نہیں کرنا پڑی تھی۔ اس ’’بلیک آئوٹ‘‘ کی مصلحت یہ تھی کہ رات کے وقت اگر دشمن کے بمبار پرواز کرتے ہوئے آئیں تو انہیں جہاں پر بھی روشنی نظر آئے گی۔وہاں آبادی کا تصور کر کے بم برسا کر بھاگ جائیں گے۔ اسی لئے لوگ رات بھر کمروں میں دبکے پڑے رہتے۔ دروازوں پر موٹے موٹے کالے رنگ کے کپڑے لٹکا دیے جاتے تاکہ اندر کی محدود روشنی بھی باہر نہ جانے پائے۔ ایسے میں لالٹین ‘ دیئے یا موم بتی کی روشنی میں بچے اپنی من پسند کتابیں جو چھوٹے چھوٹے ناول ہوتے وہ پڑھتے۔ نوجوان اور بزرگ مردوں اور عورتوں کے لئے بھی لاتعداد لکھنے والوں نے ناول تحریر کر رکھے تھے۔ نسیم حجازی تاریخی ناول۔ ابن صفی کے جاسوسی ناول‘ رضیہ بٹ اور سلمیٰ کنول کے رومانوی ناول‘ یہ سب انہی آنہ لائبریریوں پر مل جایا کرتے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب معاشرتی شرم و حیا اور اخلاقیات کی وجہ سے عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو کے افسانوں کی کتابیں عموماً کائونٹر کے نیچے چھپا کر رکھی جاتی تھیں اور انہیں خصوصی فرمائش پر نکال کر دیا جاتا۔ رات بھرکرفیو بھی ایک طرح کا ’’لاک ڈائون‘‘ ہی تھا۔ جس نے تمام گھر والوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا تھا۔ ورنہ نوجوانوں کا رات گئے تک کا ٹھکانہ تو محلے کا چوک یا بند دکانوں کے تھڑے ہوتے تھے۔ پورے ملک میں معاشی سرگرمیاں تقریباً محدود ہو کر رہ گئیں تھیں‘ لیکن کسی فلاحی تنظیم کو راشن تقسیم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ محلے دار خود ہی اپنے محلے کے مفلوک الحال لوگوں تک کھانا اور راشن پہنچاتے تھے۔ اشیائے خوردو نوش میں ایک پیسے کا بھی اضافہ نہیں ہوا تھا۔ ہر کوئی ایک ہی وجہ بتاتا کہ گورنر امیر محمد خان نے تمام تاجروں کو بلایا اور مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے کہا کہ اگر ذخیرہ اندوزی کی یا قیمت بڑھائی تو تمہارا وہ حشر کروں گا کہ دنیا دیکھے گی۔ آج پچپن سال بعد دوبارہ گھروں میں محصور ہوئے ہیں تو یاد آیا کہ ہم تخلیق کے معاملے میں ایک بانجھ اور بنجر قوم بن چکے ہیں اور سب سے زیادہ بانجھ پن بچوں کا ادب تخلیق کرنے کے معاملے میں ہے۔ اس دور میں کم از کم دو درجن کے قریب بچوں کے رسالے شائع ہوتے تھے جن میں لکھاری بچوں کی عمر اور استعداد کے مطابق کہانیاں تحریر کرتے۔ کارٹون اور پہیلیاں ہوتیں اور قسط وار سلسلے بچوں کو پورا ہفتہ اگلے رسالے کا منتظر رکھتے۔ بچوں کے لئے خصوصاً ان کی نوجوانی کے زمانے کے لئے لاتعداد ناولوں کی ایک دنیا آباد تھی۔ گزشتہ دنوں ایک بچپن کے دوست نے اپنے پاس موجود ان چھوٹے چھوٹے ناولوں کے سرورق واٹس ایپ پر بھیجے تو دیر تک اس دور کی خوبصورتیوں میں کھویا رہا۔ ہو سکتا ہے آج بھی کسی کو یہ شاندار تحریریں یاد ہوں‘’’میرا نام منگو ہے‘‘ ’’قیدی‘‘ ایک ٹانگ کا آدمی‘ وہ کون تھا‘ دو یتیم‘ بھیانک غار‘ بھوت بنگلہ‘ حافظ جی‘ پراسرار آبدوز‘قزاقوں کی وادی‘ ہاتھی دانت کے چور‘ عالی پر کیا گزری‘ محمود پر کیا بیتی‘ اندھیرا غار‘ وہ کیا راز تھا‘ گگو میاں‘ خزانے کا راز‘ غرض یہ چند ایک ہیں جنہیں اس وقت کا بہت بڑا پبلشر فیروز سنز شائع کرتا تھا۔ آج مال روڈ سے گزرو تو اس فیروز سنز کی خوبصورت عمارت اور شاندار دکان پر بچوں کے ناول بھوت بنگلہ کا گمان ہوتا ہے۔ وسیع عریض ہال میں ہزاروں کتابیں الماریوں میں رکھی اور میزوں پر سچی ہوتی تھیں۔ میرے جیسے وہ نوجوان جنہیں کتاب خریدنے کی توفیق نہ ہوتی‘ یہاں ایک دو گھنٹے گزار کر قسط وار کتاب پڑھ لیتے۔ کیا آج کوئی یاد کر کے آنسو بہاتا ہے کہ مال روڈ پر زمزمہ کی توپ سے لے کر چیئرنگ کراس تک بے شمار کتابوں کی دکانیں تھیں جو اب بند ہو چکی ہیں۔ ان میں کہیں جوتوں اور کہیں کپڑوں کی دکانیں کھل چکی ہیں۔ انارکلی بازار کا آغاز جہاں اب صرف بے ہنگم ریڑھیوں پر جوتے اور کپڑے ملتے ہیں وہاں صرف کتابوں اور سٹیشنری کی دکانیں ہوا کرتی تھیں اور فٹ پاتھ پر پرانی کتابیں بیچنے والے ہزاروں کتابیں لے کر بیٹھے ہوتے تھے۔ تحصیل علم کے دیوانوں کا یہ ٹھکانہ تھا۔ پچپن سال کے بعد ایک بار پھر گھر میں لاک ڈائون ہوئے ہیں تو محسوس ہوا کہ ہمارے پاس اپنی آئندہ نسل کے دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم انہیں جو رنگین کتابیں لا کر دیتے ہیں وہ امریکہ یا انگلینڈ میں لکھی اور چھپی ہوئی ہیں۔ اب ہم میں کوئی صوفی تبسم موجود نہیں جو بچوں کے لئے محنت کے ساتھ ٹوٹ بٹوٹ کی ایک نئی نظم تخلیق کرے۔ ہمیں تو اب ٹوٹ بٹوٹ کی نظمیں’’ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ‘‘ یا ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی‘‘ یاد تک نہیں۔ ہم نے تو علامہ اقبال کی نظموں ’’مکڑا اور مکھی‘‘ پہاڑ اور گلہری‘ ماں کا خواب اور لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ‘ کو بھی یکسر بھلا دیا ہے۔ ہمارے پاس بچوں کو دینے کے لئے مانگے تانگے کی کہانیاں ہیں۔ بابا بابا بلیک شیپ جیسی متعصب نظمیں ہیں‘ سنڈریلا جیسی اخلاقیات والی لڑکی ہے جو ماں سے جھوٹ بول کر گھر سے نکلتی ہے ۔ کتابوں میں شائع تصویریں ہوں یا کارٹونوں میں لباس سب کچھ ہمارا نہیںہے۔ پراٹھے کی جگہ پیزا ہے تو مٹھائی کی جگہ کیک‘ مؤذن کی اذان کی جگہ گرجا گھر کی گھنٹیوں کی آوازیں ہیں اور چندا ماموں کی جگہ ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل سٹار ہے۔ صرف تین دہائیوں میں کوئی قوم تخلیقی طور پر اتنی بانجھ ہو جائے گی اس کا اندازہ لاک ڈائون کی تنہائی کو مزید خوفناک پُر ہول اور اذیت ناک بنا رہاہے۔