پہلے ایک شعر کہ عمران خان اسے خوشامدیوں کے حوالے سے ذہن میں رکھیں: کتنی خوش اسلوبیوں سے اس نے کاٹا یہ سفر پائوں پڑنے والے ہی نے آخر میرا سر لیا حکومت سازی آرائش خم کا کل نہیں بلکہ اندیشہ ہائے دورودراز والا کام ہے۔ جس ٹہنی میں لچک نہ ہو وہ ٹوٹ جاتی ہے۔ ہاں مجرموں کے لیے بھی یہی ٹہنی بہتر انداز میںکارآمد ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی اس خیر کی طرح دلچسپ ہے کہ ’’ن لیگ کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی۔‘‘ امراؤ جان ادا کو تو جان سے جانا پڑا تھا، تب جا کر کہا تھا ’’اسے یقین آ گیا وہ مان تو گیا۔ بابا جی یہ سیاست کا رومانس ہے۔ یہ دلجوئی تو ان کے زخم ہرے کردے گی۔ تاہم پی پی کی بدن بولی کچھ اور ہے کہ ن لیگ کی شکست سے انہیں اپنی شکست بھی بھول گئی اور ایک گونہ بے نام سا لطف انہوں نے اٹھایا ہے۔ اصل میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول نے ایک انداز میں پھر سے اپنی شناخت کا پودا لگایا ہے جو نرم و کومل بھی ہے اور خوشبودار بھی۔ آپ اسے میری خوش گمانی بھی کہہ سکتے ہیں۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ لاکھ عمران خان کہتا رہے کہ: میں اکیلا ہوں تنہا ہوں شہر لایا ہوں روک خرابوں سے لیکن امور سلطنت اکیلے بندے کا کام نہیں۔ کسی نے اچھی بات لکھی کہ خان صاحب کے ساتھیوں کا آدھا وقت آپس میں لڑائی کرنے میں گزر جاتا۔ باقی آدھے دن کا بھی انہوں نے کچھ نہیں بتایا کہ وہ بھی کارآمد ہے کہ نہیں۔ ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ دانا دشمن کو بیوقوف ساتھیوں پر فوقیت دے دی جائے۔ بات یہ کہ پاک وطن کی بہتری ہی مقصد و محور ہو۔ اس حوالے سے یہ نہایت مثبت اور صحت مند اقدام ہے کہ عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں شہبازشریف، زرداری اور بلاول کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ پاکستان جس صورت حال سے گزر رہا ہے، نفرتیں کم کرنے اور محبتیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔ دشمنوں کو گلے لگا لیا جائے تو وہ محبوب بن جاتے ہیں، جیسے کہ کسی استاد نے کہا تھا: گلے سے لگتے ہی جتنے گلے تھے بھول گئے وگرنہ یاد تھیں ہم کو شکایتیں کیا کیا آپ یقین کیجئے مجھے تو مولانا فضل الرحمن پر بھی ترس آیا ہے کہ ایک تو انہیں ایسے باہر نکالا جیسے مکھن سے بال نکلتا ہے۔ دوسرا وہ مشق رستم بن کر رہ گئے۔ کاش وہ کم از کم یہ نہ کہتے کہ وہ چودہ اگست نہیں منائیں گے۔ یہ فاش غلطی تھی۔ انہیں اپنے آپ کو اسفند یار ولی اور محموداچکزئی سے بہرحال ممتاز رکھنا چاہیے تھا۔ میری ہمدردی ایک انسانی ہمدردی ہے اور ویسے بھی مولانا کے بغیر اسمبلی میں کچھ رونق نہیں رہے گی۔ سب ان کی غیر موجودگی کو شدت سے محبوس کریں گے۔ وہ تو آپ نے سن ہی رکھا ہے کہ گالیاں نکالنے والی مائی بیمار پڑ گئی تو محلے کے سارے نوجوان پریشان ہو گئے کہ وہ مائی کہاں گئی جو انہیں گالیاں دیتی تھی۔ میرا مقصد یہ نہیں کہ مولانا گالیاں نکالتے تھے۔ گالیاں تو کمزور شخص دیتا ہے، وہ تو دھمکیاں دیتے ہیں۔ وقت کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ نہ جانے کب عمران خان کو مولانا کی ضرورت پڑ جائے۔ ویسے بھی ان کے بقول ہر حکومت دو چیزیں چھوڑ کر جاتی ہے خالی خزانہ اور مولانا فضل الرحمن۔ کیا آپ نے صرف خزانہ ہی قبول کیا ہے؟ مولانا کے حوالے سے ایک اہم بات ذہن میں آئی کہ ان دونوں کچھ مولانا حضرات مولانا فضل الرحمن پر ایسا ایسا تبرا بھیج رہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ آپ وہ الفاظ سننے کی تاب نہیں لا سکتے۔ میں نے خود مولانا کے رویے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ آصف محمود نے بہت اعلیٰ انداز میں انہیں ایکس پوز کیا ہے مگر گالی نہیں، نہیں میری سرکار گالی نہیں۔ گالی تو وہاں آتی ہے جہاں نہ دلیل رہتی ہے اور نہ تہذیب۔ تھوڑی سی بات ادب کی ہو جائے کہ ابھی مجھے دوستوں کے پیغامات آئے ہیں کہ ابرارالحق نے اپنی نئی سی ڈی میں ایک گیت سے پہلے میرے اشعار گائے ہیں: موسم تیرے آون نال موسم تیرے جاون نال بندہ کلا رہ جاندا بوہتے یار بناون نال میں نے ہنس کر کہا کہ ابرارالحق ہارنے کے بعد دوبارہ اپنے کام پر آ گیا۔ بہرحال مجھے اچھا لگا کہ اس نے میرے شعر چنے۔ اس سے پیشتر یہ غزل حامد علی نے بھی گائی اور عدیل برکی نے ہندوستان کی ایک فلم کے لیے۔ لیجئے ادب کی بات ہوئی تو مجھے نذیر قیصر یاد آ گئے کہ انہوں نے میرے ایک پروگرام میں شعر پڑھا جو موجودہ حالات میں ایک زبردست پیغام ہے: انج دی وی تصویر بنائی جا سکدی اے دیوے پچھے رات لکائی جا سکدی اے بس اسی چیز کی ضرورت ہے کہ ہم دوسروں کے عیب نہ نکالیں، خوبیاں تلاش کریں کیا ہم اتنا اعلیٰ ظرف رکھتے ہیں۔ بالکل رکھتے ہیں، آپ اپنے من میں جھانکھیں تو سہی۔ بیدی نے کیا خوب کہا تھا ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ دوسروں کے دکھ کے اندر بھی ایک آسودگی چھپی ہوئی ہے۔ دوسروں کے دکھ اپنے دکھوں کو ہلکا کردیتے ہیں۔ اس وقت پوری قوم عمران خان کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے اور قوم اسی شخص کو پسند کرے گی جو عمران خان کا ساتھ دے گا یا کم از کم رکاوٹ نہیں بنے گا۔ اس حوالے سے ق لیگ اور پیپلزپارٹی کا رویہ بہتر نظر آ رہا ہے۔ ن لیگ کو بھی اپنے رویے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ اصل معاملہ تو ملکی فلاح و ترقی ہے۔ آخر میں فرحت زاہد کی تازہ ترین خوبصورت غزل کے چند اشعار: اک دریا ہے ایک گھڑا ہے آسے پاسے عشق کھڑا ہے شہزادی یہ سوچ رہی ہے تخت بڑا یا پیار بڑا ہے جس رستے میں تم آئے ہو اس میں میرا خواب پڑا ہے فرحت اس کا نام بتائو برف کے اندر پھول جڑا ہے