آپ سوشل میڈیا پر اپنے عدالتی فیصلوں اور طریقہ انصاف کے باعث مشہور چیف جج فرینک کیپریو کی کہانی پڑھنا چاہیں گے یا اس دبائو کے اثرات کا تجزیہ پسند کریں گے جو ان دنوں داخلی اور خارجی سطح پر حکومت کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ بات فرینک کیپریو سے شروع کرلیتے ہیں۔ فرینک کیپریو 70 برس کے لگ بھگ عمر کے ہیں‘ خوش طبع‘ مدبر اور درد مند دل کے مالک۔ ان کی عدالت میں زیادہ تر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے چالان پیش ہوتے ہیں۔ ایک 88 سالہ بزرگ حاضر ہوئے۔ الزام تھا کہ گاڑی حد رفتار سے تیز چلا رہے تھے‘ بزرگ نے جرم کااعتراف کیا اور بتایا کہ ان کا پچاس سالہ بیٹا معذوری کی زندگی گزار رہا ہے‘ بیٹے کی دیکھ بھال انہیں کرنا ہوتی ہے‘ اس روز ڈاکٹر کو دکھانا تھا‘ تاخیر ہورہی تھی اس لیے گاڑی کچھ تیز ہو گئی۔ کیپریو نے اس عمر میں بیٹے کی دیکھ بھال کرنے پر بوڑھے کو سلیوٹ کیا اور آئندہ محتاط رہنے کا انتباہ کرکے جرمانہ معاف کردیا۔ ایک عدالتی کارروائی کے دوران جج فرینک کیپریو کی لگ بھگ 37 برس کی بیٹی مرسیا کمرے میں موجود تھی۔ کیپریو نے اسے اپنے پاس بلایا‘ اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ ایسا کرتے ہوئے کمرہ عدالت میں موجود لوگوں کو بتایا کہ مرسیا ایک کریڈٹ کمپنی میں ملازم تھی‘ بہت سے لوگوں کی قرض کی درخوا ستیں نامکمل یا نا درست طریقے سے فارم بھرنے کی وجہ سے مسترد ہو جانے پر مرسیا کا دل ٹوٹ جاتا لیکن وہ ادارے کے ضابطوں کی پابند تھی۔ آخر اس نے ملازمت چھوڑ کر قرض کے خواہاں افراد اور دکانداروں کو فارم بھرنے کی رضاکارانہ تربیت دینے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اب کریڈٹ کمپنیوں کے لیے درخواستیں مسترد کرنا مشکل ہو گیا‘ اس عمل نے مرسیا کو دلی سکون اور مسرت عطا کی۔ دبائو کی بات امریکہ سے چلی۔ ممکن ہے جنرل باجوہ سے بھی کسی سطح پر رابطہ کیا گیا ہو لیکن وزیراعظم عمران خان سے ضرور اس بابت رابطے ہوئے۔ پاکستان پچھلے پچاس برسوں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا سٹریٹجک شراکت دار رہا ہے۔ ان کی سب سے بڑی شراکت داری افغان جہاد کی صورت میں سامنے آئی۔ عربوں کے ساتھ عجیب کھیل کھیلا گیا۔ لیبیا‘ عراق‘ سوڈان‘ قطر کو الگ الگ کردیا گیا۔ سعودی عرب اور عرب امارات اکٹھے رہے۔ مصر بھی صدر ا لسیسی کی قیادت میں سعودی عرب کا ساتھی بن گیا۔ عربوں کے مقابلے میں ترکی مضبوط ہورہا ہے۔ عربوں کی دولت خیرات اور عیاشی میں استعمال ہوئی مگر سائنس و ٹیکنالوجی میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ تیل بھی ختم ہورہا ہے‘ دنیا متبادل ذرائع پر منتقل ہورہی ہے۔ تین سال سے 150 ڈالر فی بیرل والا تیل چالیس ڈالر کے قریب فروخت ہورہا ہے۔ پمپنگ کا خرچ پورا نہیں ہورہا۔ اس ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے امریکی دماغ آگے بڑھے‘ امریکی دماغوں کے ساتھ چمٹی ایک خاص ملک سے تعلقات کی سوچ بھی آ گئی۔ پہلے ایک بڑے ملک میں پاکستانی افرادی قوت کے لیے مسائل پیدا ہوئے‘ اب دوسرے نے ویزے پر پابندی لگا دی۔ پی ڈی ایم سے وابستہ لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ وہ ملکی مفاد کے خلاف استعمال ہورہے ہوں۔ ایک سابقہ کالم میں تحریر کر چکا ہوں کہ لندن میں بیٹھی ن لیگی قیادت بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھائو تائو میں مصروف ہے۔ ایک شکست خوردہ جماعت‘ ایک سزا یافتہ رہنما بھلا عالمی اسٹیبلشمنٹ کے کس کام آ سکتا ہے؟ کوئی اسے دشمنوں سے سیاسی رابطوں کا نام نہیں دینا چاہتا تو نہ دے کاروباری رابطوں کا نام دینے سے بھی مطلب سمجھ میں آ جائے گا۔ وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ افلاس انقلاب اور جرم کا باپ ہوتا ہے۔ آدمی دماغی مفلسی اور مایوسی کا شکار ہو جائے تو صرف انتشار جنم لیتا ہے۔ پی ڈی ایم قائدین کو اصل بات سے آگاہ کرنا انٹیلی جنس اداروں کا کام ہے جو وہ حکومت اور پارلیمنٹ کو ذریعہ بنا کر انجام دے سکتے ہیں۔ اب پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سنجیدہ مکالمہ نہیں ہو پارہا۔ یہ وہ گنجائش ہے جو ہمارا دشمن استعمال کر رہا ہے۔نیشنل ڈائیلاگ کی تجویز اس لئے آئی ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ کو غیر فعال ثابت کرنا مقصود ہے۔ ایک جمہوری نظام میں پارلیمنٹ ہی نیشنل ڈائیلاگ کا پلیٹ فارم ہوتی ہے ۔جب حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے بات نہ کر سکیں تو بیرونی قوتیں پاور بروکر بن جایا کرتی ہیں ۔ان حالات میں ایران کے سائنسدان فخری زادہ جیسا المیہ کسی کے ساتھ ہو جائے تو منقسم قوم کا ردعمل بہت کمزور ہو تا ہے ۔ جج فرینک کیپریو کی ویڈیو دیکھ کر حوصلہ ہوتا ہے کہ ابھی انصاف پسند لوگ زندہ ہیں۔ ایسے ہی لوگ کہتے ہیں کہ ہر پریشانی کا علاج کام ہے۔ خدشات اور تفکرات کا غم کسی غم زدہ کی مدد کرنا ہے۔ زندگی کا یہ سبق بہت نرالا ہے کہ اکثر جو لوگ خدمت کرتے ہیں وہ ان مخدوموںکی نسبت زیادہ ثمر پاتے ہیں جن کی خدمت بجا لاتے ہیں۔ پاکستان کو بڑے بحرانوں سے بچانے کے لیے ہمیں اس کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرنے والے لوگ درکار ہیں۔ ایسے لوگ جو سڑک پر کوڑا پھینکنے کی ممانعت کریں‘ جو ویران جگہوں کو درختوں سے بھر دیں‘ جو پرندوں کے لیے پناہ گاہیں بنا دیں‘ جو بلامعاوضہ بچوں کو پڑھا دیں‘ جو سیاست میں دلچسپی رکھنے والے عام لوگوں کو قومی مفاد کی تشریح کردیں جو بتا دیں کہ بالائی طبقے کے سیاستدان امریکہ اور برطانیہ سے مہنگی کورونا ویکسین استعمال کرسکتے ہیں لیکن غریب کو ابھی دو تین سال انتظار کرنا ہو گا ۔ جو بتائیں کہ قوم کا شکار کرنے کے لئے اسے پہلے لیڈر سے محروم کیا جاتا ہے تاکہ وہ بھیڑ بکری بن جائے ۔اس لیے چھپے ہوئے دشمن کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ہرگز استعمال نہ ہوں۔