اللہ کرے، پیپلز پارٹی کے رہنمائوں بالخصوص لطیف کھوسہ اور مرتضیٰ وہاب کی خوشیاں دائمی ہوں۔ لطیف کھوسہ قابل وکیل ہیں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ نیب بھی جے آئی ٹی کی رپورٹ کو اٹھا کر پھینک دے گی کہ اس پر کارروائی نہیں ہو سکتی تو ہم آپ بھلا کون انہیں جھٹلانے والے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی قانونی قیادت کی خوشی کہیں ویسی ہی خوش فہمی نہ ہو جو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کی طرف سے جے آئی ٹی کی تشکیل پر مسلم لیگی قیادت کو لاحق ہوئی تھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پیپلز پارٹی زبانی کلامی خوشی منا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے جے آئی ٹی کی رپورٹ نیب کو بھیجنے اور کارروائی کرنے پر مطمئن ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے معاملہ جے آئی ٹی کے سپرد کرنے پر مٹھائیاں تقسیم کیں اور اسے اپنی قیادت کی تاریخی فتح قرار دیا۔ وہ مٹھائی اور تاریخی فتح مسلم لیگی قیادت کو آج تک ہضم نہیں ہوئی۔ مٹھائی بانٹنے اور کھانے والے مجنوں قیادت کے محبوب ومرغوب ہیں۔ قیادت کے چہیتے اور مسلم لیگ کے اصل وارث۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں زرداری خاندان اور اس کے سیاسی، کاروباری اورسماجی دوستوں کا جو کچا چٹھا بیان ہوا، اُسے پڑھ کرکوئی سوچ نہیں سکتا کہ نیب دوران تفتیش ان حقائق کو جھٹلانے اور زرداری خاندان کو کلین چٹ دینے پر تیار ہو گی۔ زرداری صاحب جوڑ توڑ اور لین دین کے بادشاہ ہیں۔ ایان علی اور کئی دوسرے ملزموں کو فاروق ایچ نائیک اور لطیف کھوسہ کی ٹیم نے مکھن سے بال کی طرح نکالا اور تفتیش کاروں نے شرجیل میمن کے کمرے کی شراب کو مہارت سے شہد اور زیتون میں بدلا، حتیٰ کہ موقع کے گواہ چیف جسٹس ثاقب نثار دنگ رہ گئے ایسا ہی چمتکار اگر نیب کی سطح پر ہو جائے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ بقول حماد غزنوی ع یہ دنیا ہے یہاں ہر بات ممکن ہے آخر میاں نواز شریف اور ان کے قریبی ساتھی کواپریٹو سکینڈل‘ سپریم کورٹ حملہ کیس سے باعزت بری ہوتے رہے اور زرداری صاحب اپنی شہرت کے باوجود غلام حسین انہڑ کیس سے لے کر ایس جی ایس کوٹیکنا کیس تک کسی مقدمے میں بھی سزا یاب نہیں ہوئے۔ سرے محل ان کی ملکیت ثابت ہوا۔ سوئٹزر لینڈ کے بنک اکائونٹ میں پڑی دولت بھی انہی کے اکائونٹ میں منتقل ہوئی مگر ہماری اسٹیبلشمنٹ اور عدالتوں نے انہیں کلین چٹ دی، اب بھی پرامید ہیں۔ جب آصف علی زرداری اور اُن کے حاشیہ نشین ماضی میں عدالتوں سے بریت اور مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں تو مجھے کلیم عاجز یاد آتے ہیں ایک دلیر اور درویش شاعر۔ 1975ء میں اندرا گاندھی نے ہندوستان میں ایمرجنسی نافذ کی‘آزادی اظہار پر پابندی لگائی‘ بنیادی انسانی حقوق سلب کر لئے اور کئی سیاستدانوں کو جیل بھیج دیا۔15اگست کو نئی دہلی کے لال قلعہ میں یوم آزادی کے موقع پر محفل مشاعرہ ہوئی جس کی صدارت اندرا گاندھی نے کی‘ کلیم عاجز نے وزیر اعظم کی طرف اشارہ کر کے یہ شعر پڑھا ؎ دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو! ہال تالیوں سے گونج اٹھا مگر منتظمین مشاعرہ کاخون خشک ہو گیا۔ پانامہ جے آئی ٹی سے لے کر جعلی اکائونٹس کے حوالے سے بننے والی جے آئی ٹی رپورٹوں اور نیب کا بعض اہم سیاسی شخصیات کے خلاف تفتیشی مواد پڑھ کر یوں لگتا ہے کلیم عاجز اندرا گاندھی نہیں پاکستانی سیاستدانوں سے مخاطب ہیں ؎ میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو مجھ سے ہی، امیروں کی طرح، بات کرو ہو دن ایک ستم‘ ایک ستم، رات کرو ہو وہ دوست ہو‘ دشمن کو بھی تم، مات کرو ہو ہم خاک نشیں، تم سخن آرائے سربام پاس آکے ملو، دور سے کیا بات کرو ہو ہم کو جو ملا ہے، وہ تمہیں سے تو ملا ہے ہم اور بھلا دیں تمہیں، کیا بات کرو ہو یوں تو کبھی، منہ پھیر کے، دیکھو بھی نہیں ہو جب وقت پڑے ہے، تو مدارات کرو ہو دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو بکنے بھی دو عاجز کو، جو بولے ہے، بکے ہے دیوانہ ہے، دیوانے سے، کیا بات کرو ہو ہمارے سیاستدان اور حکمران بالخصوص مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے خورد وکلاں گزشتہ چار پانچ عشروں سے انتخابی مہم کے دوران اور اقتدار سنبھالنے کے بعد عوام کو جس طرح بہلاتے، پھسلاتے، دھتکارتے اور ذلیل و رسوا کرتے ہیں اس کی بہترین عکاسی کلیم عاجز نے کی ہے یا کسی زمانے میں مجید لاہوری فرمایا کرتے تھے ؎ عہدہ و منصب دلا، جمہوریت کے نام پر تخت پر مجھ کو بٹھا، جمہوریت کے نام پر ’’آیت الکرسی‘‘ کا کرتا ہوں وظیفہ رات دن بخش کرسی اے خدا، جمہوریت کے نام پر فاقہ کش، لٹتے رہیں، پٹتے رہیں، مٹتے رہیں مجھ کو ’’ڈکٹیٹر‘‘ بنا جمہوریت کے نام پر بھولی بھالی قوم کوئی، اور مل سکتی نہیں قوم کو اُلّو بنا جمہوریت کے نام پر پہلے تو دے آتشِ صوبہ پرستی کو ہوا تیل پھر اس پر گرا ،جمہوریت کے نام پر اتحاد قوم ہے ’’ڈینجر‘‘ برائے اقتدار قوم کو باہم لڑا، جمہوریت کے نام پر دَور، اب بھی دُور ہے، سلطانی جمہور کا خوب ابھی ’’گھپلا‘‘ چلا جمہوریت کے نام پر ماضی میں پولیس کی طرح نیب، ایف آئی اے حتیٰ کہ عدلیہ نے بھی حکمرانوں کے ہاتھ کی چھڑی، جیب کی گھڑی بن کر اپنی عزت اور قوم کی قسمت خراب کی، اب مگر صورتحال مختلف ہے۔ نیب ایک امتحان سے سرخرو نکلی ہے اور عدلیہ نے بھی نئی اور درخشاں روایات قائم کی ہیں۔چیئرمین نیب مسٹر جسٹس (ر) جاوید اقبال اور چیف جسٹس ثاقب نثار روزانہ قوم کی توقعات بڑھاتے ہیں۔ لطیف کھوسہ اور مرتضیٰ وہاب کی خوشی، خوش فہمی پر مبنی ہے یا زرداری صاحب اب بھی کوئی چمتکار دکھانے کی پوزیشن میں ہیں؟ دو ماہ گزرے دیر نہیں لگتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کی حالت بدلنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو مارچ اور اپریل کے مہینے 2017ء کی طرح 2019ء میں بھی بہار کا پیغام لائیں گے، ثابت ہوگا خرابی ہماری قسمت میں نہیں، قیادت میں تھی۔ ہمت کرے انساں تو قسمت بدلتے دیر لگتی ہے نہ قیادت۔ ؎ روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں پس تحریر: وفاقی حکومت اور وزیراعظم عمران خان جے آئی ٹی ارکان کی حفاظت کا فول پروف بندوبست کریں اور جسٹس (ر) جاوید اقبال سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق یہ کیس نیب کے ان افسران کے سپرد کریں جن کے زرداری صاحب اور ملک ریاض سے رابطے تھے نہ ممکن ہیں۔