اقبال نے کہا تھا ؎ کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق نے اَبلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند تاریخ کی ستم ظریفی بے رحم ہے۔ آج یہ ملک دو پاٹوں کے درمیان پس رہا ہے۔ ابلہانِ مسجد اور فرزندان تہذیب کے درمیان! عمران خان کے دھرنے میں تہذیب کے فرزند یعنی مسٹر حضرات دھوکا کھا گئے ہم جیسے لکھاری بھی اس رَو میں بہہ گئے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اندازہ نہ لگا سکے کہ پچاس لاکھ ملازمتیں اور لاکھوں مکان بننے کا امکان ہے نہ آئی ایم ایف کے چنگل سے رہائی پانے کی امید! مولانا کے دھرنے میں شامل اہل مذہب کو احتراماً ہم ابلہان مسجد نہیں کہتے مگر یہ طبقہ بھی بے نقاب ہو گیا۔ دھرنے کے نتائج پر ان دنوں خوب بحث ہو رہی ہے ۔ کیا کھویا کیا پایا کی فہرست بن رہی ہے۔ مگر ایک طویل المیعاد نقصان مولانا اپنی پوری کلاس کو پہنچا گئے۔ ایسا نقصان جس کا شاید انہیں ادراک بھی نہ ہو مگر ملک کے سمجھدار اور سنجیدہ لوگوں نے اس حقیقت کو اپنی برہنہ آنکھ سے دیکھ لیا کہ دھرنے میں شریک ‘ کیا مدارس کے طلبہ اور کیا مدارس کے اساتذہ ‘ محض اور محض مقلد ہیں! سیاسی حرکیات سے مکمل نابلد! سماجی اور اقتصادی اشاروں (indicators)سے مکمل ناواقف! دھرنے میں شامل ان حضرات کے انٹرویو خوب خوب وائرل ہوئے۔ مثلاً یہ کہ عمران خان یہودیوں کا ایجنٹ ہے۔ پوچھا گیا آپ کو کیسے معلوم ہوا‘ جواب تھا ہمارے قائد نے ہمیں ایسا بتایا ہے اور ہمیں اس پر اعتماد ہے‘ یا انٹرویو دینے ہی سے منع کر دیا گیا۔ یہی حضرات کل مسجدوں کے خطیب اور امام بنیں گے۔ بغیر تحقیق کیسے دوسروں کو یہودی ‘ یہودیوں کا ایجنٹ کہنا‘ کافر قرار دینا‘ شروع ہی سے مزاج کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ پھر جب یہ ہزاروں کے مجمع کو جمعہ کے خطبے دیتے ہیں۔ بڑے بڑے جلسوں میں وعظ کرتے ہیں تو یہی روش قائم رہتی ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کو جذبات کے دریا میں بہانا‘ مشتعل کرنا اور تکفیر کے فتوے لگانا کیوں عام ہے! پھر تعجب ہی کیا ہے اگر کسی آتش فشاں مولوی کا وعظ سن کر کوئی جذباتی نوجوان اُٹھے اور جسے بھی یہودی یا یہودیوں کا ایجنٹ سمجھتا ہے یا اپنی دانست میں پیغمبرؐ یا صحابہؓ یا اہل بیت کا گستاخ گردانتا ہے‘ اسے قتل کر دے! کیونکہ معلومات کی اساس یہ ہے کہ ’’ہمارے قائد نے ہمیں ایسا بتایا ہے‘‘ ایک روایت آج کل مشہور ہو رہی ہے کہ جج نے مصری صدر انور السادات کے قاتل سے پوچھا کہ تونے سادات کو کیوں قتل کیا؟ قاتل نے جواب دیا اس لئے کہ وہ سیکولر تھا۔ جج نے پوچھا سیکولر کیا ہوتا ہے‘ جواب دیا مجھے نہیں معلوم! مصری ادیب نجیب محفوظ پر قاتلانہ حملہ کرنے والے سے پوچھا گیا کہ کیوں حملہ کیا تو جواب تھا کہ اس نے فلاں کتاب لکھی ہے۔ پوچھا گیا کیا تم نے کتاب پڑھی ہے؟جواب تھا نہیں! یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے جو مذہبی طبقات میں عام ہے۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ اکابر کی غلطی نہیں نکالی جا سکتی! آج تک متحارب مذہبی گروہ اپنے اپنے اکابر کی عبارتوں کا دفاع کر رہے ہیں۔ اتنی ہمت نہیں کہ غلطی کو غلطی تسلیم کریں یا اتنا ہی کہہ دیں کہ یہ ان کا نکتہ نظر تھا۔ ضروری نہیں کہ ان کا ہر معتقد اس سے اتفاق کرے! اسی مائنڈ سیٹ کا شاخسانہ ہے کہ مذہبی جلسوں‘ تقاریب اور مواعظ کے دوران سوال جواب کا تصور عنقا ہے۔ حضرت جو کچھ فرما دیں‘ اس کے بارے میں سوال نہیں کیا جا سکتا! حوالہ نہیں پوچھا جا سکتا! دلیل نہیں مانگی جا سکتی! اگر واعظ نے فرما دیا کہ اتنے سال حور کے قدموں میں چلتے رہیں گے یا اسی فٹ کی حور ہو گی تو یا تو مان لیجیے یا شبہ ہے تو دل ہی میں رکھیے ؎ دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام کشتی کسی کی پار ہو یا درمیان رہے دھرنے سے ایک اور بات واضح ہو گئی کہ مذہبی حلقے‘ جس فرقے سے بھی ہوں دشنام طرازی کو برا نہیں سمجھتے۔ اس سے پہلے ایک اور مسلک‘ سٹیج سے گالیوں کے دریا بہانے کے لئے مشہور ہو چکے ہیں۔ اب یہ دوسرے مسلک کے لوگ اس حوالے سے بے نقاب ہوئے ہیں۔ سٹیج سے گالیاں نکالی گئیں اور جو علماء کرام وہاں‘ دائیں بائیں‘ موجود تھے وہ لطف اندوز ہوتے رہے۔ ہنستے رہے‘ مزے اٹھاتے رہے! جن مولانا صاحب نے گالیاں دیںان کی کچھ ایسی ویڈیو کلپس وائرل ہوئی ہیں جن میں وہ کلام پاک سامنے کھول کر تقریر کر رہے ہیں مگر جو باتیں کر رہے ہیں‘ جو مثالیں اور تشبیہات دے رہے ہیں وہ ہمارا اخبار تو کیا‘ کوئی اخبار بھی نقل کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا نہ ہی ایسی تقریر فیملی کے ساتھ بیٹھ کر سنی جا سکتی ہے! ہمارے ہاں جو جمہوریت رائج ہے اس کی اصلیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف جاگیرداری نظام ہے۔ بڑی بڑی زمینداریاں ہیں۔ مزارع‘ ہاری اور ان کے خاندان اسے ہی ووٹ ڈالتے ہیں جس کے لئے چودھری یا چودھرائن حکم دے۔ ایک عزیزہ جو ملکانی ہیں بتا رہی تھیں کہ عورتیں حویلی میں جمع ہوتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ جی!ٹھپہ کس نشان پر لگانا ہے؟ انہیں بتایا جاتا ہے اور پھر وہ بار بار دہراتی ہیں کہ کہاں لگانا ہے! دوسری طرف ہمارے مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کی اکثریت ہے جو اپنے اپنے قائد ‘ اپنے اپنے مسلک‘ اپنے اپنے شیخ‘ اپنے اپنے حضرت صاحب کے حکم پر بلاچون و چرا عمل کرتے ہیں اور ووٹ ڈالتے ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مذہبی قائد وہی ہو گا جو اپنے عہد کے تقاضوں سے باخبر ہو گا اور اپنے عصر کے حقائق سے روشناس! مگر ہمارے مذہبی قائدین وکی کو جمائمہ کا کزن قرار دے کر اپنی بھی تضحیک کراتے ہیں اور اپنے جیسے دوسروں کی بھی ع آپ بھی شرمسار ہو‘ مجھ کو بھی شرمسار کر شاید اسی لئے علامہ کو کہنا پڑا ؎ قوم کیا چیز ہے‘ قوموں کی امامت کیا ہے اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام اس میں کیا شک ہے کہ دھرنا منظم تھا‘ کوئی ہنگامہ‘ کوئی توڑ پھوڑ ‘ کوئی تخریبی کارروائی نہیں ہوئی۔ مولانا نے اپنی قیادت ثابت کر دی۔ ابتدا کے چند دن حکومت پر گراں گزرے۔ مولانا کا لہجہ اور الٹی میٹم دینے کا انداز‘ بارعب تھا اور خوف زدہ کر دینے والا! پھر انہوں نے دانش مندی سے کام لیتے ہوئے‘ اسے سمیٹ بھی دیا اور عمران خان صاحب کے دھرنے کی طرح بے جا طوالت سے گریز کیا۔ یہ کالم نگار اسے مولانا کی شکست نہیں عقل مندی قرار دے گا کہ بند گلی میں اپنے آپ کو مقید کر کے بھی انہوں نے واپسی کی راہ نکال لی! یہ ساری باتیں درست ہیں مگر ذہنوں میں مدارس کے طلبہ کے حوالے سے جو نقش بیٹھا ہے وہ ہرگز صحت مند اور قابل رشک نہیں! ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ مولانا مودودی عصر کے بعد کسی جگہ سوال جواب کا سیشن کرتے تھے۔ یہی پریکٹس جاوید غامدی صاحب کی بھی ہے۔ ہمارے قابل احترام علماء کرام کی اکثریت ان دونوں صاحبان کے خیالات اور آرا سے متفق نہیں۔ مگر ان کی خدمت میں ہم‘ مودبانہ‘ گزارش کریں گے کہ صرف وعظ کے بجائے سوال جواب کے سیشن بھی منعقد کریں۔ یہ دروازہ مدارس کے اندر بھی کھولنا چاہیے اور باہر بھی ! تاکہ طلبہ اور معتقدین بھی‘ اپنے اپنے شبہات اور سوالات کے جوابات پا کر مذہبی معاملات میں اطمینان قلب حاصل کر سکیں اور اندھی تقلید کا رویہ کم ہو سکے!