لوگوں کی اکثریت کہا کرتی تھی‘ ایسا ہسپتال جو مفت علاج کرے وہ بن نہیں سکتا‘ بن جائے تو چل نہیں سکتا‘ دو‘ چار‘ چھ ماہ زیادہ سے زیادہ ایک سال مگر ہم نے ناقدین کی پرواہ کئے بغیر فیصلہ کیا اور پیسے اکٹھے کرنا شروع کر دیے۔ابھی ارادہ 1500بستروں کے ہسپتال کا تھا‘ ڈیڑھ(150) سو بستروں کے ہسپتال سے آج تیرہ(13) ہسپتال پورے پاکستان میں ہیں۔51اضلاع میں ہمارے پرائمری ہیلتھ کیئر اور کمیونٹی کے پروگرام چل رہے ہیں‘ کلینک چل رہے ہیں‘ موبائل وین چل رہی ہیں‘ کنٹز کلینکس چل رہے ہیں‘ یہ پہلا کیش لیس‘ ہسپتال ہے‘ کیبل لیس بھی ہے‘ اس لئے کہ ہسپتال کے لئے جو سوفٹ ویئر بنا ‘ ہسپتال کے اندر بنا ہے۔ہمارے چیف ایگزیکٹو سامنے بیٹھے ہیں شکیل صاحب یہ پہلے اکیلے تھے‘ پھر ان کے دو مددگار اور آ گئے‘ ڈاکٹروں کے ساتھ بیٹھ کر سافٹ ویئر ڈویلپ کیا‘ یہ کیش لیس ہسپتال اس لئے ہے کہ یہاں کوئی کیش کائونٹر نہیں ہے‘ ہم کسی سے پیسے نہیں لیتے‘ جو آئے اس کا علاج کرتے ہیں۔وہ دوست آئے جو ہسپتال کے مہینہ‘ دو مہینے‘ چھ ماہ ‘ حد ایک سال چلنے کی پیش گوئی کرتے تھے‘ وہ آئے انہوں نے تسلیم کیا کہ ڈاکٹر صاحب آپ ٹھیک کہتے تھے‘ ہم آپ کی طرح پرامید نہیں تھے۔ پہلے سال کا بجٹ دس کروڑ تھا‘ آج چونتیس(34) ارب روپے کا اپریشنل بجٹ ہے‘34ارب میں صفر کتنے لگتے ہیں‘ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں لیکن جس ذات نے یہ سب کرنا ہے‘ اس کے لئے صفروں اور ہندسوں کی کوئی اہمیت نہیں۔اس نے کہنا ہے ’’کُن‘‘ ہو جا اور سب کچھ خود بخود ہو جاتا ہے۔ مجھے لوگ کہتے ہیں، ڈاکٹر صاحب آپ کو نیند کیسے آتی ہے۔10ہزار ملازمین‘51اضلاع تک پھیلا ہوا کام 34ارب روپے کا اپریشنل بجٹ اور تقریباً اتنے ہی یعنی 34‘35ارب روپے نئے ہسپتال اور دوسرے ہسپتالوں کی توسیع کے لئے درکار ہوتے ہیں۔کراچی میں نیا ہسپتال بن رہا ہے‘ لاہور میں چھ سو بستر کا ہسپتال تیار ہو رہا ہے‘ اس میں بھی اخراجات اٹھیں گے یہ کھربوں روپے کی باتیں ہیں لیکن میں یقین سے کہتا ہوں یہ سب ہو چکے گا انشاء اللہ۔ ہماری تنظیم اور پاکستانیوں کے تعاون سے‘ جب پاکستان سے باہر جاتا ہوں تو وہاں عجیب باتیں ہوتی ہیں‘ مجھے یاد ہے ایک دن میں تھا‘ وہاں نیو یارک میں چند گھنٹوں کے لئے لائٹ چلی گئی‘ ہر طرف اندھیرا چھا گیا‘ تو ہر سمت تباہی مچ گئی‘ لوٹ مار اس بے دردی اور کثرت سے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے‘ جو لوگ پاکستان سے باہر ہیں‘ تعلیم‘ روزگار یا محنت مزدوری کے لئے ان کے دل پاکستان کے لئے دھڑکتے ہیں‘ پاکستان میں یہ ہو گیا پاکستان میں وہ ہو گیا ہر چھوٹی بڑی خرابی انہیں بے چین رکھتی ہے ‘ کرپشن ‘ بری حکمرانی‘ امن و امان‘ سیاسی بے چینی‘ دنیا سے پیچھے رہ جانے کا غم‘ سب کچھ صبر و تحمل سے سنتے ہیں۔ایک دن میں نے فکر مند اور بے چین تارکین وطن سے عرض کیا‘ ایسی بات نہیں ہے‘ کچھ چیزیں خراب ہو گئی ہیں تو بہت کچھ اچھا بھی ہے بہت اچھا‘ پاکستان اگر زمین کے اندر جا چکا ہوتا تو پاکستان میں ٹی سی ایف نہ ہوتا۔پاکستان میں ایس اے یو ٹی نہ ہوتا‘ شوکت خانم کینسر ہسپتال نہ ہوتا، انڈس ہسپتال نہ بنتا‘ ایدھی صاحب نہ ہوتے‘ دنیا کا سب سے بڑا ان کا ایمبولینس نیٹ ورک نہ ہوتا‘ چھیپا نہ ہوتے‘ ایسی بات نہیں ہے‘ قوم زندہ ہے اور قوم کو احساس بھی ہے کہ کوئی کرے نہ کرے انہیں خود سے یہ سب کرنا ہے، پھر ہمارے بیرون ملک مقیم پاکستانی بھائی سوال کرتے ہیں آپ نے یہ سب ہسپتال وغیرہ کیوں بنائے؟یہ تو حکومت کا کام ہے۔مگر کچھ ہماری بھی ذمہ داریاں ہیں‘ اللہ کی طرف سے سونپی ہوئی صلاحیتیں اور ان کی جوابدہی کا معاملہ‘ جب اللہ کے پاس لوٹ کر جانا ہے تو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے حکومت کے بارے میں نہیں پوچھنا، اللہ نے کہا ہے‘ آپ بتائو‘ میری بنائی ہوئی دنیا اور بخشی ہوئی زندگی میں آپ نے کیا کیا؟ کیا اعمال کس کردار اور نیت کے ساتھ لے کر آئے ہو؟ مجھے براہ راست خود اپنے اعمال و کردار کا جواب دینا ہے‘ دوسروں کے بارے میں سوال مجھ سے نہیں‘ انہی سے کیا جائے گا‘ ہمیں آخرت کے لئے اپنی فکر پہلے کرنی چاہیے دوسروں کا محاسبہ بعد میں! جب پاکستان سے باہر جاتا ہوں تو اپنے پاکستانیوں سے کہتا ہوں‘ آپ کو پاکستان کے بارے میں عجیب و غریب اور بری خبریں ملتی ہیں‘ مگر میں آپ کے لئے اچھی خبر لے کر آیا ہوں‘ وہ اچھی خبر یہ ہے کہ ہمارا جو بجٹ‘ اپریشن یا پراجیکٹ توسیع یا نئے پراجیکٹ کا ہے‘ اس کے لئے 92(بانوے) فیصد اخراجات پاکستان کے اندر سے پورے ہوتے ہیں، صرف آٹھ فیصد اخراجات کا باہر سے آتا ہے۔ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے ہمیں دربدر نہیں بھٹکنا پڑتا لوگ خود چل کر آتے ہیں‘ ہم اپنا کام کرتے ہیں‘ لوگ ہمارے پاس چلے آتے ہیں‘ اللہ کے نام پر کام‘ اللہ خود انتظام بھی کرتا ہے‘ لوگوں کے دلوں میں خیال پیدا کرنے اور ان دلوں کو آپ کی طرف پھیرنے والا وہی ہے‘ اسی کے بندے خود بخود چلے آتے ہیں‘ ان میں اکثر نام و نمود کی کوئی خواہش نہیں رکھتے‘ خاموشی سے لاکھوں‘ کروڑوں ڈھیر کرتے جاتے ہیں۔ پاکستانی قوم عجیب قوم ہے‘ کوئی بحران آ جائے کوئی مشکل آن پڑے تو یہ قربانی اور ایثار کی ایسی مثال قائم کرتے ہیں کہ دوسری قوموں میں اس کا عشرعشیر بھی نہیں‘ بحران میں اس قوم سے بڑھ کر ایثار کرنے والا کرۂ ارض میں کوئی اور نہیں۔2005ء کا زلزلہ‘ 2010ء کا سیلاب‘1965ء کی جنگ‘1947ء کی ہجرت‘ سیلاب ہو یا کورونا کی حالیہ وبا‘ آپ نے ان سب واقعات میں خود دیکھ لیا‘ مشاہدہ کیا بلکہ خود ان تجربات میں شریک رہے‘ اگر عام حاات میں بھی ہم ویسے ہی ہو جائیں جیسے کہ بحران میں ہوتے ہیں تو پھر ہماری قوم معجزے تخلیق کر سکتی ہے‘ تو پھر ہم اپنی زندگی میں ہی صحت مند‘ مضبوط ‘ محفوظ اور خوش حال پاکستان دیکھیں گے۔ دوستوں نے پوچھا تھا‘ ڈاکٹر صاحب آپ کو نیند کیسی آتی ہے؟ دس ہزار ملازمین‘ ایک کھرب کے اخراجات پورے ملکمیں پھیلا ہوا کام؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میری بیگم کو مجھ سے ایک ہی شکایت ہے کہ میں بستر پر لیٹنے سے پہلے ہی سو چکا ہوتا ہوں۔اللہ کا کرم‘ مریضوں کی دعائیں۔ایک دو نہیں ہزاروں ہمدرد‘ غمگسار‘ ہاتھ بٹانے والے‘ کام میں شریک مخلص اور نیک دل‘ ایثار پیشہ‘ گہری نیند اور پرسکون دن‘ کسی قسم کے ہیجان اور پریشانی کے بغیر‘ جس عظیم الشان ‘ ہستی واحد کے لئے آپ نکلتے ہو‘ وہی ہر مشکل کا حل اور ہر کام کو آسان بنا دیتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ آج میں جہاں کھڑا ہوں یہ میرے والدین کی وجہ سے ہے‘ میرے والد تہجد گزار انسان تھے ان کی عادت تھی کہ وہ بآواز بلند دعا کیا کرتے تھے‘ اپنے بہن‘ بھائی‘ ان کے بچوں کے الگ الگ نام لے کر دعائیں مانگا کرتے‘ ساری زندگی ان کے منہ سے اپنے لئے صرف ایک دعا سنی‘ کہ باری تعالیٰ میرے بیٹے کو خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ ڈاکٹر بنانا‘ نہ دولت کے لئے‘ نہ عزت کے لئے نہ شہرت کے لئے‘ آج میں آپ کے سامنے جہاں کھڑا ہوں‘ یہ سب انہی شب زندہ دار والدین کی دعائے نیم شبی ہے‘ جنہیں باری تعالیٰ نے شرف بخشا‘ قبول فرمایا‘ اللہ ان کی قبروں کو منور کرے۔آمین