قومی اسمبلی کے رواں اجلاس میں گزشتہ چند روز سے جس ہنگامہ آرائی ‘ شور و غوغا نعرے بازی اور ایوان کے باہر گتھم گتھا ہونے کے واقعات ہو رہے ہیں اس سے عوام کے منتخب ارکان کی حالات کی سنجیدگی کے حوالے سے عدم حساسیت کا پتہ چلتا ہے۔ ملک و قوم کو آج مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور دیگر بیرونی چیلنجوں کی وجہ سے جس مشکل کا سامنا ہے اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی جیسے فورم کو مسائل کو حل کرنے ان پر اتفاق رائے اور اتحاد و تنظیم کی فضا بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا لیکن جو ہو رہا ہے وہ اس کے برعکس ہے اور ایوان زیریں کو عوام کے ان منتخب نمائندوں نے مچھلی منڈی بنا کر رکھ دیا ہے۔ خصوصاً اپوزیشن کا رویہ انتہائی غیر سنجیدہ ہے۔ وہ شخصیت پرستی کے سحر سے نکل نہیں پا رہی۔ ان کے لئے گویا افراد اہم اور ملک و قوم کے معاملات بازیچہ اطفال بن کر رہ گئے ہیں۔ارکان کو یہ باور کر لینا چاہیے کہ ملک کو آج خصوصاً بیرونی سطح پر انتہائی سنجیدہ اور خطرناک صورتحال کا سامنا ہے اس لئے پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں سنجیدگی اختیار کر کے مسائل کے حل کے لئے اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا کی جائے ۔نعرے بازی اور ہنگامہ ہائے ‘ ہائو ہواور سپیکر کے ڈائس کے گھیرائو سے ہم بیرونی دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ جب بحیثیت قوم ہم مقبوضہ کشمیر جیسے گھمبیر مسئلے کے حل کے لئے خود ہی سنجیدہ نہیں ہے تو عالمی اداروں کوکیا پڑی ہے کہ وہ ہمارے مسائل حل کریں گے ۔ موجودہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ ایوان میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو ہی موضوع بنایا جائے اور عالمی برادری پر زور دیا جائے: وہ اس مسئلے کے حل کے لئے بھارت کو صحیح ٹریک پر لانے کے لئے تمام حربے استعمال کرے۔