معزز قارئین!۔ 5 نومبر کو قومی اسمبلی میں ،پاکستان تحریک انصاف اور ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز ‘‘ کے دو ارکان میں تلخ کلامی اور اجلاس میں ہنگامہ آرائی کو مختلف اخبارات میں ۔گالیاںؔ ۔ ننگی گالیاںؔ ۔ گالم گلوچؔ۔ "Mutual Abuse"اور "Exchange of Abusive Language" کو سُرخیوں میں شامل کِیا۔ قیام پاکستان کے بعد (عوام اور خواص کو ) قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں میں اِس طرح کے مناظر کئی بار دیکھنے کو ملے ۔ بعض جمہوریت پسند اصحاب اِسے جمہوریت ؔکا حُسن کہتے ہیں ۔ گالم گلوچ کے موضوع پر مرزا غالب نے اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ… کِتنے شیریں ہیں ، تیرے لب، کہ رقیب! گالیاں کھا کے ، بے مزہ نہ ہُوا! معززقارئین! ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں سیّد یوسف رضا گیلانی سپیکر قومی اسمبلی تھے جب، 18 فروری 1994ء کو قومی اسمبلی میں اِسی طرح کی ہنگامہ آرائی ہوئی تھی ، جسے اخبارات نے ’’ گالم گلوچ‘‘ کا نام دِیا تھا ۔ 20 فروری 1994ء کو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ کالم کلوچ‘‘ مَیں قندِ مکرر / گزند ِ مکررکے طور پر آپ کی خدمت میں وہی کالم پیش کر رہا ہُوں۔ آپ نے میرا جو کچھ کرنا ہے کر لیں؟۔ ’’کالم کلوچ‘‘ مرزا غالب نے کِسی خاص موقع کے لئے کہا تھا… بزمِ شاہنشاہ میں ،اشعار کا ،دفتر کھُلا! رکھیو یا ربّ ،یہ درِ گنجینۂ گوہر کھُلا! توجہ کی جائے تو سپیکر قومی اسمبلی سیّد یوسف رضا گیلانی شاہنشاہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایوان’’بزمِ شاہنشاہ‘‘ … حزبِ اِقتدار اور حزبِ اِختلاف کے نامور’’پہلوان سخن‘‘ ہر اجلاس میں اشعار کے دفتر کھولتے اور موتی رولتے ہیں۔ غالب کی طرح میری بھی یہی دُعا ہے کہ یہ در گنجینۂ گوہر کھُلا رہے اور دونوں طرف کے ’’پہلوان سخن‘‘ گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کرتے رہیں۔ حقیقت ہے کہ مہنگائی اور ہر قسم کی آلودگی کے اِس دور میں قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی دیکھ کر یا اخبارات میں پڑھ کر عوام کو بڑی آسودگی ہوتی ہے اور معلومات میں اضافہ بھی، خاص طور پر وہ نوجوان طبقہ تو بے حد محظوظ ہوتا ہے جسے اکیسویں صدی میں داخل ہونا ہے۔ کون یہودیوں کا ایجنٹ ہے؟ اور کون بھارتی ایجنٹ؟ یہ معلومات ہمیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہمارے منتخب نمائندوں کے ذریعے مِلتی ہیں اور ایک لمحے کے لئے حیرانی بھی ہوتی ہے کہ یہودیوں اور بھارت کے ایجنٹ قومی اسمبلی میں کیسے پہنچ جاتے ہیں؟ پھر اُن حضرات کے کمالِ فن کو داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ وہ کِس صفائی اور مہارت سے عوام کی آنکھوں میں دُھول جھونک کر مُلک کے سب سے بڑے قانون ساز ادارے کے رُکن منتخب ہو گئے؟۔ ایک پارٹی دوسری پارٹی پر یہودیوں کی ایجنٹ ہونے کا الزام لگا رہی ہے اور دوسری پارٹی پہلی پارٹی پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ دونوں طرف سے زیادہ بُرا بھی نہیں منایا گیا۔ عام لوگ ایک دوسرے کی توہین کریں تو معاملہ تھانے کچہری تک پہنچ جاتا ہے لیکن یہاں تو کسی کو دُشمن مُلک کا ایجنٹ یا غدّارؔ کہنا اِسی طرح ہے کہ جیسے دو ملاقاتی ایک دوسرے کا حال چال پُوچھ رہے ہوں۔ ضِلع جُگت، پھکّڑ بازی اور ہزل گوئی کے مقابلے ہوتے ہیں اور دونوں طرف کے ’’پہلوانِ سخن‘‘ ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’’پہلوانِ سخن‘‘ اُستاد امام بخش ناسخ ؔسیفی کا لقب تھا جو شاعری اور پہلوانی دونوں میدانوں میں نامور تھے۔ حزبِ اِقتدار اور حزبِ اِختلاف میں کئی ’’پہلوانِ سخن‘‘ ہیں اور جب اپنی زباندانی سے فریقِ مخالف کو ہرا نہیں سکتے تو زورِ بازو سے چت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ معاملہ گھمبیر ہو جائے تو سپیکر صاحب اجلاس کی کارروائی ختم کر دیتے ہیں اور بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر بند ہو جاتا ہے۔ عربوں میں قبائل کے شجرۂ نسب کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ ہمارے یہاں بھی اِس پر خاص توجہ دی جاتی ہے لیکن دوسروں کے شجرۂ نسب پر۔ مثلاً فریقِ مخالف کو بتا دیا جاتا ہے کہ تمہارا باپ ٹیڈی ؔبوائے تھا اور میرے باپ کے جوتے پالش کرتا تھا اور جواب میں دوسرا فریق پہلے فریق سے کہتا ہے تمہارے باپ نے انگریزوں کے جوتے ؔپالش کر کے ترقی کی تھی۔ اس طرح گُفتگو سُن کر یا اس کی تفصیلات اخبارات میں پڑھ کر نوجوان طبقہ میں ترقی کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ محنت کی عظمت ؔکے قائل ہو جاتے ہیں اور اُنہیں یہ سبق مِلتا ہے کہ ترقی کرنے کے لئے دوسروں کے جُوتے پالش کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ بعض لوگ حیران ہوتے ہوں گے کہ ہمارے محترم سیاستدان جو سماجی تقریبات میں ایک دوسرے سے جپّھیاں ڈال کر بیٹھے قہقہے لگاتے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے دکھائی دیتے ہیں وہ قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے ایوانوں میں ایک دوسرے کی طرف الزامات کے پتّھر کیوں پھینکتے ہیں؟ بغل گِیر ہونے کے بجائے گُلو گِیرؔ ہونے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ فرض کی ادائیگی یا "Performance"کے تقاضے۔سپیکر صاحبان آزادیٔ اظہار کے بنیادی حق کے پیشِ نظر ہر رُکن کو زبان و بیان کے جوہر دِکھانے کا پورا پورا موقع دیتے ہیں لیکن جب بات حد سے بڑھ جائے تو الفاظ واپس لینے یا کم از کم اِن الفاظ کو کارروائی سے حذف کرنے کا حکم دیتے ہیں۔انگزیز قوم بڑی حقیقت پسند ہے اُنہوں نے ’’گالیوں کی ڈِکشنری‘‘ الگ مرتب کر کے شائع کی ہے یعنی… جب ذرا گردن جھُکائی دیکھ لی! والا معاملہ ہے یعنی ضرورت مند جب چاہیں اِس ڈکشنری کو کھول کر اپنی پسند کی گالی منتخب کریں اور فریق مخالف کے مُنہ پر (یا جِسم کے جِس حصّے پر چاہیں) دے ماریں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر صاحبان، اسمبلیوں کی کارروائی سے حذف کئے گئے ریمارکس یا غیر پارلیماؔنی الفاظ کی الگ الگ کتابیں چھپوا کر اُن پر’’صرف بالغوں کیلئے‘‘ لِکھوا دیں۔ مستقبل کے ممبران اسمبلی کے کام آئیں گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اکیسویں صدی میں اِن گالیوں اور غیر پارلیمانی الفاظ کی کوئی اہمیت ہی نہ رہے لیکن تاریخی ریکارڈ تو بہرحال موجود رہے گا۔ مسیحیوں نے تو اُن چودہ انجیلوں کو جنہیں وہ خود مستند نہیں سمجھتے"Apocrypha "کے نام سے ایک جِلد میں چھاپ دیا ہے۔ میری تجویز ہے۔ گر قبول اُفتدؔز ہے عِزّو شرف۔ کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں کی کارروائیوں کو مزید دِلچسپ بنایا جائے۔ قدیم روم میں"Gladiator"کا کردار انسانی تاریخ کا حِصّہ ہے۔ جب قومی سٹیڈیم میں غلام یا قیدی دوسرے لوگوں یا جانوروں کے ساتھ مرنے مارنے تک لڑتے رہتے تھے۔ مسائل کا شکار لوگ یہ پروگرام دیکھ کر بے حد محظوظ ہوتے تھے۔ بعض اوقات ٹیلی ویژن پر"wrestling"کے پروگرام میں بھی جب پہلوان ایک دوسرے سے مرنے مارنے کی جنگ لڑتے ہیں تو… سب دیکھ دیکھ اُس کو بجاتے ہیں تالیاں! تو صاحبو! میری یہ تجویز ہے کہ سپیکر صاحبان اسمبلیوں کے قواعد و ضوابط میں نرمی پیدا کر کے ممبران اسمبلی کو’’آزادیٔ اظہار‘‘ کے مزید مواقع دیں۔ مہمانوں کی گیلریوں میں داخلہ بذرؔیعہ ٹکٹ کا قانون بنوا کر نافذ کریں۔ اسمبلیوں کی کارروائی براہ راست ٹیلی ویژن پر دِکھانے کے احکامات جاری کرائیں، تو لوگ مصروف رہیں گے۔ وہ مہنگائی، بے روزگاری، سکولوں اور کالجوں میں داخلہ نہ ملنے اور زندگی کی دوسری سہولتوں کی عدم دستیابی کی شکایت نہیں کریں گے۔ انہیں ایسے’’فضول مطالبات‘‘ کیلئے وقت ہی نہیں ملے گا۔ اسمبلیوں کی کارروائیوں کی ویڈیو فِلمیں بنوا کر اوورسیز پاکستانیوں کیلئے بھی بھجوائی جا سکتی ہیں۔ اُنہیں دوسری زبانوں میں "Dub"کروا کے دوست ممالک کی خدمت میں بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ وہ اپنے اپنے ٹیلی ویژن پر"Pakistan Today"کے عنوان سے یہ فلمیں چلا سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اِسلام آباد گیا تو ایک معروف ایڈورٹائزنگ ایجنسی ’’ایڈ گروپ‘‘ کے سربراہ مسٹر آصف صلاح الدّین سے بھی ملاقات ہوئی۔ اُن کے دفتر میں’’ہمہ یاراں بہشت‘‘ کا منظر تھا۔ موضوع تھا’’قومی اسمبلی میں گالم گلوچ‘‘ جو اس روز قومی اخبارات کی سرخی تھی… ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا! بات پہنچی تیری جوانی تک! میرے بعض کالموں کے حوالے سے ایڈ گروپ کے ایک سینئر رکن شہاب ؔزبیری نے تجویز کیا کہ’’ اثر چوہان صاحب!۔ آپ جب بھی قومی اسمبلی کے اجلاس پر کالم لکھیں تو اُس کا عنوان رکھیں‘‘۔ ’’ کالم کلوچ‘‘… تو معزز قارئین!۔ میرے کالم ۔ کالم کلوچ ؔ ۔کا سارا گناہ یا ثواب شہاب ؔزبیری کے سر۔