جون کے ان سلگتے دنوں میں،تین روزقبل،یعنی جمعرات کو، اسلام آباد کا موسم خوش کن اور خوشگوار تھا،قومی اسمبلی کا کمیٹی روم نمبر 5، مشائخ و علماء سے مزین و منوربلکہ معنبر۔۔۔جبہ و دستار،عبا و عمامہ،سبحان اللہ! سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر مرکزی نشست پر جبکہ ڈاکٹر پیر نور الحق قادری وفاقی وزیر مذہبی امور اور شیخ رشید احمد وفاقی وزیر داخلہ ان کے دائیں بائیں جلوہ آرا تھے،وطن عزیز کی اکابر علمی،دینی و روحانی شخصیات اپنی تمام تر رعنائیوں اور زیبائیوں کے ساتھ ظہور پذیر،جن میں ڈاکٹر قبلہ ایاز، صاحبزادہ پیر امین الحسنات ، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا طاہر محمود اشرفی ، صاحبزادہ حامد رضا، مولانا یٰسین ظفر، مولانا افتخار نقوی، سید عبدالخبیر آزاداور میاں جلیل احمد شرقپوری سمیت چاروں صوبوں سے اوقاف ومذہبی امور کے نمائندگان بشمول سیکرٹری قومی اسمبلی اور وزارت قانون و پارلیمانی امور کے ترجمان موجود و حاضر باش جو اس اعلیٰ سطحی کمیٹی میں باقاعدہ ممبر کے حیثیت کے حامل 23رکنی۔ جس کا مرکزی ایجنڈا اورآج کا نقطۂ گفتگو،حالیہ’’وقف رجسٹریشن ایکٹ‘‘، جس پر دینی طبقات سینہ سپر اور داد رسی کے خواہاں،جس کے لیے وفاقی وزیر مذہبی امور۔۔۔سپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر داخلہ کو آن بورڈ لینے میں اس طرح کامیاب کامران کہ وہ مشائخ و علماء کے چمکتے اور پُرنور چہروں کے زیر اثر،آنِ واحد میں’’سجدہ سھو‘‘ پر مائل ہو گئے اور شیخ رشید احمدنے ہمیشہ کی طرح سبقت حاصل کرتے ہوئے صاحبانِ محراب و منبر اوراہالیانِ سجادہ و مصلّٰی کے حق میں اپنی تائید اور حمایت غیرمشروط طور پر پیش کردی، کم و بیش ایسے ہی۔۔۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تاثرات و جذبات بلکہ احکام سپیکر قومی اسمبلی نے بھی ارشاد فرما کر، ممبران کمیٹی وشرکاء اجلاس کو نہال کر دیا، دراصل پیر نور الحق قادری’’پاور سرکل ‘‘کو ہم سخن و ہم نوا بنانے کا خوب ملکہ اور داعیہ رکھتے ہیں،انہوں نے گذشتہ بدھ کو ایوانِ صدر میں’’کرونا ویکسین‘‘کی ترویج و تشہیر کے لیے دینی طبقات کی ایسی ہی ایک بزم آراستہ کی ،جس میں از خود صدر پاکستان نے ایک’’مشترکہ اعلامیہ‘‘کے ذریعے عامۃُ الناس کو قائل ومائل کرنے کی سعیٔ مستحسن فرمائی،فیصل آباد سے ہمارے دوست مولانا یٰسین ظفر جو رویت ہلال کے اجلاس کی’’سخن آرائی‘‘کے سبب ، کافی شہرت پا چکے بلکہ ریٹنگ میں سب سے ٹاپ پر رہے،نے اس پر’’اِن کیمرا‘‘خوش طبعی فرمائی ،کہنے لگے ہمارے عوام جس چیز کو ارزاں پائیں، اس پر خوامخواہ متذبذب ہو جاتے ہیں، حالانکہ ان کو اس موقع سے خوب فائدہ اٹھانا چاہیے ، بصورتِ دیگر جو ملک ، از خود’’چینی‘‘پیدا کرنے کے باوجود "چینی "کے بحران کا شکار ہو سکتا ہے ، وہاں "ویکسین "کی قحط سالی کا امکان تو ہر وقت موجود رکھا جانا چاہیے، تاہم یہ کریڈٹ تو موجود حکومت کو جاتا ہے کہ انہوں نے "1166"پر رجسٹریشن سے لے کر ویکسین سنٹرز کے اہتمام و انصرام تک، ہر چیز نہایت عمدگی کے ساتھ آراستہ کی، بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر آپ لاہور کے ایکسپو سنٹر کے ویکسین مرکز جائیں تو آپ کو عمدہ ترین انتظام اور طبی عملہ کی فرائض شناسی کی بدولت ، وہاں’’ترقی پذیر نہیں بلکہ ترقی یافتہ ملک ‘‘کا گمان ہونے لگتا ہے، جس کا ایک معنی اور مفہوم یہ بھی ہے کہ اگر یہ قوم بلکہ ہماری انتظامیہ اور سرکاری محکمے کچھ کرنا چاہیں تو پھر خوب سے خوب ترکر سکتے اور کر گزرتے ہیں۔ بہر حال اس پر صدر مملکت کا یہ مشترکہ اعلامیہ قابلِ داد اور لائق تحسین اس لئے ہے کہ ابھی کورونا ویکسین کے لئے بھر پور آگاہی مہم کو کافی آگے لے کر جانے کی ضرور ت ہے‘ جس کے لئے یقینا محراب و منبر اپنا کردار موثر انداز میں نبھائیں گے: ’’ مورخہ2جون2021ء کو صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کیساتھ ملک بھر کے جید علماء کرام، مشائخ عظام کی کرونا ویکسین کے حوالے سے اہم ترین نشست کا اہتمام کیا گیا، جس میں حسب ذیل نکات پر اتفاق ہوا: ٭۔کرونا ایک وبائی مرض ہے ، جس کی روک تھام اور علاج معالجہ کا اہتمام کرنا شریعت کا تقاضا بلکہ حکم ہے۔٭۔عوام الناس کی جان اور صحت کی حفاظت مقاصد دین و شریعت میں سے ایک مقصد ہے۔٭۔اس ویکسین کے استعمال کی ترغیب علماء کرام اور مشائخ عظام کا فرائض منصبی بنتا ہے۔٭۔کرونا وبا سے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ صحت کے ماہرین بھی اس کے مستقل علاج کے لیے ویکسین لگوانے پر زور دے رہے ہیں۔ علماء و مشائخ بھی صحت کے ماہرین کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں۔ ٭۔کرونا کی ویکسین کو جس قدر زیادہ لگوانے کا اہتمام کیا جائے گا اس وبا کی روک تھام موثر ہو گی اور معاشرتی و معاشی امور بطریق احسن جاری ہوں گے۔ ٭۔پاکستان میں اس وقت کرونا کی روک تھام کے لئے جو ویکسینز رجسٹر کی گئی ہیں، ان کے اجزاء ترکیبی پر علماء و مشائخ نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ٭۔ویکسین لگوانے پر عوام الناس کو ترغیب دلانے کے لئے علماء و مشائخ مساجد ، امام بارگاہوں ، خانقاہوں اور مدارس سے موثر اور مثبت آواز بلند کریں گے۔‘‘ دو روز قبل جمعتہ المبارک کی سہ پہر سول سکرٹریٹ میں ’’پراگریس ریویو آن کوویڈ‘‘ کے حوالے سے کیبنٹ سب کمیٹی کے اہم اجلاس میں میرے لئے دو عدد خوشگوار پہلو تھے‘ ایک تو اس روز گزشتہ تین ماہ میں ’’مثبت کیسز‘‘ کی سب سے کم شرح رپورٹ ہوئی‘ دوسرا یہ کہ پنجاب بھر کے مزاراتِ مقدسہ کو زائرین کے لئے دوبارہ کھول دینے کا فیصلہ ہوا‘ جس کی تعمیل میں ابتدائی طور پر محکمہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ اور پھر اوقاف نے اپنی تحویل میں پنجاب بھر کے مزارات ‘ ایس او پیز پر عملدرآمد سے مشروط کھول دیے۔ بہرحال دینی اور روحانی حلقوں کے لئے یہ پیغامِ مسرت و انبساط ‘ اس معنی میں بھی ہے کہ ہمارے خطے میں صوفیا اور ان کے مزارات کو ہماری تہذیبی اور دینی زندگی میں خصوصی رسوخ میسر ہے‘ یہ اعلان ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی طرح زائرین اور عقیدت مندوں کو نہال کر گیا۔ خدا کرے دیگر شعبہ ہائے حیات بھی مستعد و سرگرم اور زندگی اپنی روایتی آب و تاب کے ساتھ دوبارہ بحال ہو‘ جس کے لئے ’’کورونا ویکسین‘‘ کا اہتمام و التزام بڑا اساسی اور بنیادی ہے‘ سردست تو اس قدر بھر پور مہم جوئی کے باوجود پنجاب میں صرف 7فیصد افراد اس سے استفادہ کر سکے ہیں‘ اب اس کا دائرہ مزید وسیع ہو گیا اور شناختی کارڈ کا حامل ہر فرد اس کا مستحق قرار پا چکا ہے۔ یعنی قومی شناختی کارڈ رکھنے والے اٹھارہ سال کی عمر والے افراد کی رجسٹریشن کروا سکتے ہیں۔ بہرحال کمیٹی روم نمبر 5کے اجلاس کی معرکہ آرائی کے بیان کے لئے اب وقت بھی محدود ہے اور اسطریں بھی…صرف یہ کہ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے ہمیشہ کی طرح موضوع کی مناسبت سے،مبسوط خطبہ ارشاد فرمایا، انہوں نے برصغیر میں وقف اور اوقاف کی پوری تاریخ کا ایک جائزہ پیش کرتے ہوئے ،موجودہ بل کے خوب لَتے لیے،تو مجھے اَسّی کی دھائی میں‘ پنجاب یونیورسٹی‘ زمانۂ طالب علمی کے سالانہ مشاعرے میں سفید ریش شاعر عنایت علی خان یاد آئے، جنہوں نے اس عہد کے شہرہ آفاق "شریعت بل"کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا: یہ شریعت کا نہیں، گیس کا بل ہے بیگم "بلبلانے" کی اجازت نہیں دی جائے گی اس کے رخسار پہ ہے اور تیرے ہونٹ پہ تل "تلملانے"کی اجازت نہیں دی جائے گی