کہتے ہیں کہ ایک شہر دو حصوں میں منقسم تھا۔ آدھا دریا کے اس پار اور آدھا اس پار۔ دونوں حصوں کے مکین آر پار آنے جانے کے لئے کشتیوں کا استعمال کرتے۔ آبادی میں اضافے سے صبح اور شام کے اوقات میں کشتیوں پر بے تحاشا رش رہنے لگا۔ ایک دن بادشاہ سلامت نے سوچا کہ کوئی "میگا پروجیکٹ" بنانا چاہئے جس سے عوام کو سہولت ہوجائے۔ اس کی کابینہ میں ایک ایسا وزیر تھا جو سب پر بھاری تھا۔ اسے آگاہ کرتے ہوئے بادشاہ سلامت نے فرمایا "میں چاہتا ہوں, دریا پر پل تعمیر کروادوں تاکہ لوگوں کو آنے جانے میں سہولت ہوجائے" وزیر بولے "حضور ! یہ غلطی نہ کیجئے گا کیونکہ سہولتوں کی عادی قوم ناشکری ہوجاتی ہے" بادشاہ باز نہ آیا تو وزیر نے کہا "حضور اگر آپ نے پل تعمیر کروانا ہی ہے تو پھر یہ تعمیر عوام کی جیب سے ہی کروایئے گا تاکہ لوگ کل کلاں کوئی اور سہولت طلب کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ سہولت ملے گی ان کی جیب سے ہی" "تو کیا چندہ کرواؤں ؟" "نہیں حضور ! جب پل بن جائے تو اس پر ٹول ٹیکس لگا دیجئے گا" بادشاہ نے گھبرا کر کہا "لوگ بھڑک جائیں گے !" وزیر بولے "سوال ہی پیدا نہیں ہوتا !" بادشاہ نے خبردار کرتے ہوئے فرمایا "یاد رکھئے ! اگر لوگ بھڑکے تو آپ کی گردن مار کر ہی انہیں ٹھنڈا کروں گا" وزیر نے پراعتماد لہجے میں کہا "منظور ہے !" پل تعمیر ہوا اور ٹول ٹیکس سمیت اس کا افتتاح ہو گیا مگر عوام نے برا نہیں منایا۔ بادشاہ حیران تو ہوا مگر کچھ بولا نہیں۔ کچھ عرصہ بعد وزیر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور مشورہ دیا کہ ٹول ٹیکس دگنا کر دیجئے خزانے کو فائدہ ہوگا۔ بادشاہ بولے "اس بار تو یقینا لوگ بھڑک جائیں گے" وزیر نے کہا "اگر ایسا ہوا تو آپ میری گردن مار لیجئے گا" بادشاہ نے مشروط تجویز منظور کرتے ہوئے ٹول ٹیکس دگنا کردیا مگر پبلک اس بار بھی خاموش۔ اس خاموشی کو بادشاہ نے "عوامی محبت" سمجھتے ہوئے ایک روز وزیر سے کہا "پبلک کے برا نہ منانے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری رعایا مطیع، فرمانبردار اور اپنے بادشاہ سے محبت رکھنے والی ہے" وزیر بولے "حضور ! للہ ایسا خیال بھی ذہن میں نہ لایئے گا، یہ ہڈ حرام قوم ہے اور ہڈ حرام قوموں کی یہ خاصیت ہے کہ انہیں جتنا دباؤ یہ قومی سلامتی اور ملک کے عظیم تر مفاد میںخاموش ہی نہیں رہتی بلکہ ڈنڈا برداروں کے اقدامات کے لئے اپنی طرف سے جواز بھی گڑھتی رہتی ہے" بادشاہ نے کہا "نہیں وزیر ! ایسا نہیں ہے، اس بار تم یقینا مبالغہ کر بیٹھے" وزیر نے کہا "اچھا آپ ایک کام کیجئے !" "وہ کیا ؟" "آپ اعلان کر دیجئے کہ کل سے پل پر سے جو بھی گزرے گا وہ دو روپے ٹیکس کے ساتھ دو جوتے بھی کھائے گا" بادشاہ سلامت یہ سن کر غصے سے لال پیلے ہو گئے اور فرمایا "لگتا ہے اس بار تمہاری گردن کٹنے کا وقت آ ہی گیا ہے" بادشاہ نے ٹیکس کے ساتھ دو جوتوں کا اضافہ کروا دیا اور ساتھ ہی نئی نکور تلوار بھی منگوا کر رکھ لی۔ ہفتہ دس دن ہی ہوئے تھے کہ پل کے قریب ایک ہجوم جمع ہوا اور شاہی محل کی جانب لانگ مارچ شروع کردیا۔ جب یہ مارچ شاہی محل کے باہر پہنچ کر دھرنا دے کر بیٹھ گیا تو بادشاہ وزیر اور اپنی نئی تلوار لے کر دھرنے میں آئے اور فرمایا "تم میں سے ایک شخص کھڑا ہو اور اپنی شکایت بیان کرے" دھرنے میں سے ایک شخص سب کی ترجمانی کے لئے اٹھ کھڑا ہوا، مجمع پر سناٹا، بادشاہ کا ہاتھ تلوار کے قبضے پر، آنکھوں میں بلا کی سنجیدگی جبکہ وزیر کے چہرے پر ایک خفیف سا تبسم۔ ایسے میں مجمع سے عوامی ترجمان کی آواز بلند ہوئی "حضور کا اقبال بلند ہو ! شکایت کوئی نہیں بس ایک مشکل کا سامنا ہے جسے دور کرنے کی حضور سے اپیل ہے !" بادشاہ بولے "مشکل بیان کی جائے !" ترجمان لعاب نگلتے ہوئے بولا "حضور ! جب تک صرف ٹول ٹیکس تھا معاملہ قابل برداشت ہی نہیں بلکہ ٹھیک ٹھاک بھی تھا لیکن یہ دو جوتے جو ہمیں کھانے پڑتے ہیں۔۔۔۔۔" ترجمان نے اتنا ہی کہا تھا کہ بادشاہ نے تلوار کے قبضے پر گرفت مزید مضبوط کرتے ہوئے وزیر پر ایک خون آلود نگاہ ڈالی۔ ترجمان نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا "یہ دو جوتے جو ہمیں کھانے پڑتے ہیں اس میں ایک مشکل یہ ہے کہ جوتے مارنے والا عملہ بہت محدود ہے جس کی وجہ سے صبح نوکری کے لئے جاتے ہوئے اور شام کو گھر لوٹتے وقت قطاروں میں لگنا پڑتا جس سے تاخیر ہوجاتی ہے۔ حضور سے اپیل ہے کہ جوتے مارنے والے عملے میں اضافہ فرمادیں" بادشاہ کا منہ حیرت سے کھلا اور کھلا ہی رہ گیا۔ نواز شریف کی غلطی یہ رہی کہ اس نے میگا پروجیکٹس تو بہت بنائے مگر ان کے ایک بھی پروجیکٹ کے ساتھ دو جوتے مارنے کی سہولت نہ تھی اور بقول وزیر مذکور اگر پبلک کو جوتے نہ مارے جائیں صرف سہولتیں دی جائیں تو وہ ناشکری ہوجاتی ہے۔ عمران خان کو اس بات کی تو داد دینی ہی پڑے گی کہ وہ اپنے وزیر داخلہ، مشیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر کے ذریعے عوام کی’’خدمت‘‘ کی بھی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ امید ہے اس بار قومی اطمینان دیکھنے کو ملے گا !