قومی اقتصادی کونسل نے آئندہ مالی سال کے لئے وفاق اور صوبوں کے 1.837کھرب روپے کے ترقیاتی بجٹ اور بارہویں 5سالہ منصوبے کی منظوری دیدی ہے۔ اجلاس میں جی ڈی پی گروتھ ریٹ 4‘زرعی ترقی کی شرح3.5،صنعتی ترقی کی 2.2اور خدمات کے شعبے کی 4.8فیصد مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے جب اقتدار سنبھالا تو ملک شدید معاشی بحران کا شکار تھا۔ حکومت کے پاس قرضوں کی ادائیگیوں کے لئے پیسے نہیں تھے ،تب وزیر اعظم عمران خان نے تگ و دو کر کے دوست ممالک سے قرضہ حاصل کیا اور تمام ترقیاتی اور غیر ترقیاتی منصوبوں پر پابندی عائد کر کے ملکی معیشت کو سہارا دیا۔ گو شروع میں وزیر اعظم کی معاشی ٹیم کمزور تھی جو حالات کے مطابق فیصلے نہ کر سکی اور ملکی معیشت زبوں حال کا شکار رہی لیکن وزیر اعظم عمران خان جب سے اپنی معاشی ٹیم میں تبدیلی لائے ہیں تب سے حالات قدرے بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ روپیہ مستحکم ہو رہا ہے، سٹاک مارکیٹ میں تیزی آ رہی ہے اور تاجر برادری بھی قدرے مطمئن ہے ، اگر حکومت نے ایسی ہی معاشی پالیساں جاری رکھیں تو بہت جلداقتصادی بحران پر قابو پا لیا جائے گا ۔ درحقیقت کسی بھی ملک کا اقتصادی نظام جب ماہرین معیشت کی بجائے اناڑیوں یاحساب دانوں کے ہاتھوں میں دے دیاجائے تو معیشت تباہ ہو جاتی ہے اور یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہوا ہے۔ موجودہ حکومت بہت سارے ایسے کام کر رہی ہے جو ماضی کی حکومتوں کو کرنے چاہئیں تھے لیکن مسلم لیگ(ن) نے ڈالر کو مصنوعی سہارا دیکر اس کی قیمت کو کنٹرول کیا اورعملی اقدامات پر سرے سے توجہ ہی نہیں دی جیسے ہی مصنوعی سہار اختم ہوا تو ڈالر یکدم خرگوش کی رفتار سے اوپر گیا اور سب کچھ مہنگائی کے سیلاب میں بہہ گیا۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں ستائے ہوئے تھے انھوں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا جس کے بعد ہی حکومت کو اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لیکر ازسر نو معاشی پالیسی ترتیب دینا پڑی، جس کے بعد ڈالر اب کچھوے کی رفتار سے نیچے آ رہاہے تا ہم مہنگائی اپنی جگہ پر برقرار ہے جس کے باعث عوام کو جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو چکا ہے۔ قومی اقتصادی کونسل نے 1.837ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی ہے ماضی میں یہ بھی دیکھنے میں آتا رہا ہے کہ حکومتیں ترقیاتی بجٹ کی منظوری تو دے دیتی تھیں لیکن اس کے باوجود مقررہ مدت میں بجٹ خرچ نہیں ہوتا تھا اور یوں سال کے آخر میں اربوں روپے کا بجٹ ضائع ہو جاتا تھا۔ ماضی میں حکومت مختلف سکیموں کے ترقیاتی بجٹ کو اپنے من پسند منصوبوں میں منتقل کر لیتی تھی اب اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ موجودہ حکومت نے چونکہ عوامی فلاح کا وعدہ کر رکھا ہے اس لیے ضروری ہے کہ تمام پسماندہ علاقوں میں یکساں ترقیاتی کام شروع کرائے جائیں تاکہ اقربا پروری کا خاتمہ ہو سکے۔ ماضی میں لاہور کا بجٹ جنوبی پنجاب کے گیارہ اضلاع سے زیادہ تھا۔ اسی بنا پر جنوبی پنجاب کے عوام تخت لاہور کے خلاف باتیں کرتے تھے۔ ستم ظریفی یہ کہ لاہور میں بھی اس قدر بجٹ خرچ ہونے کے باوجود ابھی تک نہ تو لاہور کے باسیوں کو صاف پانی پینے کو ملا ہے نہ ہی صحت اور صفائی کی سہولتیں میسر ہیں۔خوش آئند امر یہ ہے کہ تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نے امسال اپنے 400ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے جس کے مطابق جنوبی پنجاب کے لئے 35فیصد ‘ شمالی پنجاب کے لئے 33فیصد جبکہ وسطی پنجاب کے لئے 32فیصد ترقیاتی مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت پنجاب نے پورے صوبے میں یکساں ترقیاتی کاموں کا تہیہ تو کر لیا ہے لیکن اس پر عملدرآمد بھی یقینی بنایا جانا چاہیے۔ ماضی میں بھی بڑے بلند و بانگ دعوے کئے جاتے رہے ہیں لیکن عین موقع پر سارے منصوبوں پر کام بند کرکے وسائل کا رخ صرف صوبائی دارالحکومت کی طرف کر دیا جاتا تھا۔جس سے صوبے کے دوسرے اضلاع کی حق تلفی ہوتی تھی اسی طرح صوبہ سندھ میں بھی ایسی ہی تفریق نظر آئی تھی۔ ایم کیو ایم سے سیاسی عداوت کے باعث پیپلز پارٹی کراچی جیسے بڑے شہر پر آٹے میں نمک کے برابر خرچ کرتی تھی جبکہ سارا بجٹ نوڈیرو ‘ سکھر اور لاڑکانہ کی نذرکر دیے جاتے رہے۔ جس بنا پر سندھ میں الگ انتظامی یونٹ کی آوازیں سامنے آئیں۔ اگر پورے صوبے میں یکساں طور پر ترقیاتی کام ہوں تو کوئی بھی سیاسی جماعت نئے انتظامی یونٹ کی بات نہ کرے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس بار ملک بھر میں یکساں طور پر ترقیاتی کاموں کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ انہیں اپنے عزم کو عملی جامہ پہنا کر عوام کے سامنے سرخرو ہونا چاہیے جبکہ اس کے ساتھ ہی جی ڈی پی کی شرح افزائش کو مستحکم رکھنے کے اقدامات بھی کرنے چاہئیں۔ قومی اقتصادی کونسل نے زرعی ترقی کی شرح 3.5پر رکھنے کی منظوری دیدی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج ہم افغانستان جیسے ملک سے سبزیاں اور پھل درآمدکرنے پر مجبور ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کاٹن کی پیداوار بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم نے افغانستان سے 6ارب روپے سے زائد مالیت کی کاٹن درآمد کی ہے۔ قومی اقتصادی کونسل نے بظاہر تو اچھے فیصلے کئے ہیں لیکن ضرورت اس امرکی ہے کہ بجٹ کے اہداف حاصل کرنے کے لئے ٹیکس چوروں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے اور غریب عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے۔ غریب آدمی پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنے سے اجتناب کرتے ہوئے آنے والے بجٹ میں عوام کو بھر پور ریلیف فراہم کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔