وفاقی کابینہ نے قومی اقلیتی کمشن میں قادیانیوں کو شامل کرنے کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے نئی سمری منظور کر لی ہے۔ قومی اقلیتی کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے قادیانیوں کی شمولیت نے قومی خصوصاً مذہبی حلقوں میں تشویش پیدا کر دی تھی۔ اگرچہ پہلی سمری کو واپس لے کر نئی سمری کی منظوری سے معاملہ کی پیچیدگی کم ہو گئی ہے تاہم یہ تاثر موجود ہے کہ وزیر مذہبی امور غلط بیانی سے کام لیتے رہے ہیں ورنہ بار بار سمریاں تبدیل کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔دوسری بات یہ کہ اگر یہ قومی اقلیتی کمیشن ہے تو اس میں دو مسلمان ارکان کی شمولیت کا جواز کیا ہے خواہ ان کی حیثیت آزاد مسلم رکن کی ہی کیوں نہ ہو۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہر دو چار ماہ بعد حل شدہ قادیانی مسئلے کو متنازعہ بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے‘ حالانکہ آئین پاکستان میں انہیں متفقہ طور پر غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے۔ مزید برآں یہ کہ قادیانی خود کواقلیت تسلیم نہیں کرتے اس طرح وہ 1973ء کے آئین کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں۔صورت حال اس امر کی متقاضی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے وزراء کی صفوں کا جائزہ لیں اور جو وزراء یا حکومتی حلقے قادیانیوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں ان پر کڑی نظر رکھیں کیونکہ یہی وہ سازشی عناصر ہے جو گڑے مردے اکھیڑ کر مذہبی انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں جس کا فوری تدارک ضروری ہے۔ آئین پاکستان میں قادیانیوں کے بارے جو معاملہ طے کر لیا گیا ہے اسے اب چھیڑا نہیں جانا چاہیے۔