’’مبارک ہو ! نیا پاکستان بن رہا ہے‘‘ ’’میں نئے پاکستان کا مخالف ہوں مجھے اس کی مبارکباد نہ دیجئے‘‘ ’’مخالف کیوں ہیں نئے پاکستان کے ؟‘‘ ’’مخالف اس لئے ہوں کہ 1971ء میں بھی نیا پاکستان بنانے کی کوشش ہوئی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد والا پاکستان قائد اعظم والا پاکستان تو نہ رہا۔ ایک بالکل ہی نیا پاکستان وجود میں آگیا جس کا نہ جغرافیہ پرانے پاکستان والا تھا، نہ آبادی پرانے پاکستان والی تھی اور نہ ہی اکائیاں پرانے پاکستان والی تھیں۔ اس سانحے نے اتنا ڈرا رکھا ہے کہ جب ایک بار پھر نئے پاکستان کی بات ہو تو میں کانپ جاتا ہوں‘‘ ’’کہاں کی بات کہاں ملا رہے ہیں آپ۔ یہ تو سیاسی تعصب لگتا ہے آپ کا‘‘ ’’میں یہیں کی بات یہیں ملا رہا ہوں بھائی ! وہ انتخابات ہی تو تھے جس سے تباہی کا حتمی مرحلہ شروع ہوا تھا۔ فرق بس یہ تھا کہ سیاسی طور پر منتشر پاکستان میں ایسے انتخابات ہوئے جنہیں اپنے اور پرائے سب ہی ہماری تاریخ کے شفاف ترین انتخابات کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ کوئی ایک بھی جماعت یا شخص ایسا نہیں دیکھا گیا جس نے ان انتخابات کے شفاف ہونے سے انکار کیا ہو۔۔۔۔‘‘ ’’تو پھر ؟‘‘ ’’تو پھر یہ کہ تب ان شفاف انتخابات کے نتیجے میں جس کی حکومت بننی چاہئے تھی اسے حکومت نہیں بنانے دی گئی۔ جب بنگالیوں نے دیکھا کہ اپنا حق حاصل کرنے کا سب سے معتبر ذریعہ ہی فیل ہوگیا۔ پارلیمانی جمہوری نظام میں فتح ملنے کے باوجود اس کا حق حکمرانی تسلیم نہیں کیا جا رہا تو یہ تماشا تو ساری زندگی چل سکتا ہے۔ آج نہیں مل رہا تو کیا گارنٹی ہے کہ کل مل جائے گا ؟ انہوں نے بڑا قدم اٹھانے کی ٹھان لی۔ جب ہم نے ان کا حق چھینا تو انہوں نے خود کو ہم سے جدا کر لیا‘‘ ’’2018ء کے انتخابات کو 1970ء کے انتخابات سے جوڑ کر آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ حالیہ انتخابات بھی شفاف ہوئے ہیں۔‘‘ ’’قطعا نہیں ! میں آپ کو یہی تو بتانے جا رہا ہوں کہ تب کے اور آج کے حالات میں بس یہی ایک فرق ہے کہ تب انتخابات شفاف ہوئے تھے اور جس نے جیتے تھے اس کا حق حکمرانی تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ جبکہ اس بار جسے حق حکمرانی ملااس کا یہ حق چھیننے کے لئے اپوزیشن ایک بڑا کھیل کھیل رہی ہے۔ خیبر پختون خوا میں پچھلے دس پندرہ سال سے بمباریاں ہورہی ہیں۔ یہ ملک کا واحد علاقہ ہے جہاں ٹینک اور لڑاکا طیارے کسی دشمن ملک کی طرح گولہ باری کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں تو باقاعدہ علیحدگی کے نعرے لگ رہے ہیں۔ سندھ میں مہاجر قومیت کو سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ ایسے میں لے دے کر ایک پنجاب ہی بچا تھا جہاں ان انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کے لئے ایک سال سے جو کچھ کیا گیا وہ نہایت تباہ کن ہے۔ اس کے کچھ بھی نتائج نکل سکتے ہیں‘‘ ’’اب اتنے بھی برے حالات نہیں ہیں، جتنے آپ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘ ’’حضور ! جتنا میں باور کرا رہا ہوں اس سے زیادہ خطر ناک ہیں اور چند افراد اس کے ذمہ دار ہیں۔ اگر اس صورتحال کو نہیں سنبھالا گیا اور بحران شدت اختیار کرتا چلا گیا تو سب کچھ اتنی بری طرح بکھرے گا کہ ہمارے پاس سنبھالنے کے لئے کوئی ادارہ ہی نہ ہوگا۔ سپریم کورٹ اور افواج پاکستان پر عوام کا غیر متزلزل اعتماد ہماری بقاکے لئے بے پناہ اہمیت رکھتا ہے۔ ہمیں کل نہیں آج سے ہی اس اعتماد سازی کے لئے اقدامات شروع کرنے ہوں گے کیونکہ کل کبھی نہیں آتا‘‘ ’’میں دوبارہ کہہ رہا ہوں کہ صورتحال اتنی بھی بری نہیں جتنی آپ بتا رہے ہیں۔ ملک میں ٹریفک رواں دواں ہے، مارکیٹیں کھلی ہوئی ہیں، بازاروں میں عورتوں اور بچوں کی چہل پہل جاری ہے اور مسجدیں آباد ہیں۔ یہ سب اچھے حالات کی علامات ہیں‘‘ ’’اڑتالیس سال قبل الیکشن کے بعد ڈھاکہ اور چٹاگانگ کے مناظر بھی ایسے ہی تھے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ چائے خانوں سے لے کر بالا خانوں تک لوگ گفتگو کیا کر رہے ہیں ؟ تب بھی ہر طرف ایک ہی بات چل رہی تھی، آج بھی ہر سو ایک ہی موضوع زیر بحث ہے۔ لوگ گفتگو اسی لئے کرتے ہیں کہ وہ گفتگو کے ذریعے مسائل کے حل پر یقین رکھتے ہیں۔ ’’مثال دیجئے، ایسا کیا ہو سکتا ہے کہ بڑی تباہی کا دروازہ کھل جائے گا ؟‘‘ ’’اللہ ہمارے وطن، اس کے اداروں اور اس کی قومی قیادت کو سلامت رکھے لیکن اڈیالہ جیل سے نواز شریف کی صحت کے حوالے اچھی خبریں نہیں آرہیں۔ وہ دل کے عارضے میں پہلے ہی مبتلا ہیں۔ سو میں دست بستہ التجا کرنے پر مجبور ہوں کہ کسی کے حق حکمرانی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی پچاس سال پرانی غلطی نہ دہرائی جائے۔ انتخابات پر ہمارا قومی اتفاق رائے ہے۔ یہ حقوق اور اختیارات کی منتقلی کا پرامن راستہ ہے۔ یہ راستہ آپ ناکام کریں گے تو امن ختم ہوگا۔ یہ بات سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ اس راستے کا سلامت رہنا سیاسی لحاظ سے ہماری قومی بقاء کی واحد ضمانت ہے۔