خود اپنی حد سے نکل کر حدود ڈھونڈتی ہے کہ خاک باردگر بھی قیود ڈھونڈتی ہے ہوائے تند بڑھاتی ہے خود چراغ کی لو کہ روشنی میں یہ اپنا وجود ڈھونڈتی ہے واقعتاً یہ انسان تو ہی ہے ،مٹھی بھر مٹی جو اڑتی ہے تو خاک بنتی ہے مگر جتنا بھی اڑ لے آخر واپس پلٹتی ہے اور سر پر بھی پڑ سکتی ہے ۔انجام کار تو مگر مٹی کی ڈھیری ہے۔میں آغاز ہی میں آپ کو فلسفہ جھاڑ کر پریشان نہیں کرنا چاہتا بلکہ آپ کے دل کی بات کروں گا جو آپ کے من کو بھائے۔ ایسی باتیں آج کل بڑی آسانی سے مل جاتی ہے کہ جن کو پڑھ کر آپ کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں اور آپ سرشار ہو جائیں مثلاً ایک نہایت روح پرور بیان اسد عمر کا نظر نواز ہو گیا کہ کراچی پر سیاست کی تو تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی دونوں کو جوتے پڑیں گے۔ اسد عمر جو کہتے ہیں وہ ہو جاتا ہے۔آپ کو یاد ہے ناں کہ جب انہوں نے کہا کہ مہنگائی سے لوگوں کی چیخیں نکل جائیں گی اور پھر پوری قوم نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا ۔لگتا ہے وہ علم نجوم کے ماہر ہیں، انہوں نے جو کچھ جہانگیر ترین کے بارے میں خان صاحب کو شکایت لگائی تھی وہ بھی درست تھی۔ ان کی اگر کوئی بات غلط نکلتی ہے تو وہ ہے جو وہ اپنے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں۔ بہرحال انہوں نے یہ درست کہا کہ اب دونوں کو کام کر کے دکھانا ہو گا: اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا وہ اگر ایم کیو ایم کو بھی شامل کر لیتے تو زیادہ اچھا پیغام پہنچتا ۔ایم کیو ایم سے ہمیں ہمدردی بھی ہے کہ ان لوگوں میں بہت ٹیلنٹ ہے مگر ایک غدار نے انہیں غلط راستے پر لگا دیا اور قصور ان کا بھی جنہوں نے ان کو ان کے شایان شان حق نہیں دیا۔ پھر جب وہ رستے سے بھٹکے تو ان کو راہ راست پر لانے کی کوشش نہیں کی ،ان کی تین چار نسلیں یہیں جوان ہوئی ہیں۔توقع کرنی چاہیے کہ وہ محنت اور اخلاص سے بڑے دھارے میں آ جائیں۔ جو بھی ہے سب کو ہی مل کر کراچی کا وقار بحال کرنا چاہیے۔ اس ماحول میں تو شریف آدمی کا کام ہی نہیں رہا وہاں تو بربادی کے منصوبے تھے۔ ایک انداز جدگانہ: جو بھٹکتا ہے وہی راہ بنا جاتا ہے ورنہ بستی میں کہاں سیدھا چلا جاتا ہے کراچی تو ایک طرف، مجھے تو لاہور کے حالات بھی اچھے نہیں لگتے ۔لکھتے ہوئے قلم کانپ جاتاہے کہ موٹر وے پر گوجرانوالہ کی ایک خاتون کے ساتھ ڈاکوئوں نے اس کے بچوں کی موجودگی میں اجتماعی زیادتی کر ڈالی۔ڈاکو انہیں ویرانے میں لے گئے۔ کسی کی جان و مال اور عزت ہرگز محفوظ نہیں۔ اس بات سے لوگوں کو خوش نہ کریں کہ سارجنٹ نے سی سی پی او کا چالان کر دیا۔ آپ ڈاکوئوں اور چوروں کو پکڑیں۔ اب دیکھتے ہیں نئے آئی جی انعام غنی کو کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ قدم قدم پر نشہ بکتا ہے قبضہ گروپ کس قدر فعال ہیں اور یہی سیاسی اثرورسوخ رکھتے ہیں کہ جن کی خواہش پر تھانوں میں ایس ایچ اوز لگائے جاتے ہیں۔اللہ کرے آئی جی صاحب کچھ کر گزریں۔ایسے ہی شعر یاد آ گیا: تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے حکومت کو طعام خانوں اور آرام گاہوں کی فکر کھائی جا رہی ہے۔ ابھی میں ایک تصویر دیکھ رہا تھا کہ جس میں بزردار صاحب اور پی ٹی آئی کے کچھ لوگ لذت طعام کے ساتھ ایک طعام گاہ کا افتتاح کر رہے ہیں۔ ایسے میں اکبر الہ آبادی کا شعر یاد آیا: قوم کے غم میں ڈنر کھاتا ہے حکام کے ساتھ رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ گزارش یہ ہے کہ ہم آپ کی طعام گاہوں اور قیام گاہوں کے خلاف نہیں مگر آپ کا تو یہ کام نہیں یہ تو مخیر حضرات کرتے ہیں ۔ آپ کا کام ہے بے روزگاری ختم کرنا ہے۔ غریبوں کے لئے تعلیمی سہولتیں مہیا کرنا ہے۔ ہسپتالوں میں غریبوں کا مفت علاج کرنا۔ ادھر تو آپ نے ہاتھ کھڑے کئے ہوئے ہیں بلکہ دوائیں چار سو فیصد مہنگی کر رکھی ہیں۔سفید پوش جو عزت نفس رکھتا ہے وہ کبھی آپ کی طعام گاہ یا قیام گاہ میں نہیں جائے گا اسے عزت کی ملازمت چاہیے۔ سب سے بڑا مسئلہ قانون نافذ کرنے کاہے۔ آپ ہوش کے ناخن لیں وگرنہ حافظ حسین احمد کا کہنا آنیوالے دنوں کی خبر دے رہا ہے کہ حالات قومی حکومت کے آثار دکھا رہے ہیں۔ کچھ کچھ لگتا ایسے ہی ہے کہ زرداری‘گیلانی پر فرد جرم عائد اور نواز شریف کو اشہاری قرار دے دیا گیا ہے۔ لگتا ہے کہ آہستہ آہستہ اب وہ راستے سے ہٹائے جا رے ہیں۔بدنام تو وہ خیر پہلے ہی ہیں۔ زرداری صاحب بہرحال اپنے حواس بحال رکھے ہوئے ہیں مگر میدان صاف ہو گیا تو باقی عمران خاں کی پارٹی بچے گی جو عمران خاں کا ہی دوسرا نام ہے ۔باقی جو دو چار غیر سنجیدہ لوگ ہیں۔ کہنا میں چاہتا ہوں کہ عمران خاں کے ناکام ہونے کے بعد کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی خان صاحب کے حق میں اٹھے گا۔ ان کو اپنے نام نہاد ٹائیگر بھی نہیں ملیں گے جتنے عام حالات میں ن لیگ کو یا پیپلز پارٹی کو مل جاتے ہیں۔ بہرحال سب کچھ آہستہ آہستہ سامنے آ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سعید غنی نے اسد عمر کے جواب میں کہا ہے کہ جوتے انہیں پڑیں گے جو کام نہیں کرتے۔ جو بھی ہے جوتوں کا ڈر بھی اور بوٹ بھی جوتے کہلاتے ہیں۔ وہ پرانا واقعہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ ایک فلیٹ پر ایک اوباش رہتا تھا۔ فلم دیکھ کر آتا تو ایک بوٹ اتار کر پھینکتا پھر دوسرا۔ نیچے فلیٹ والے اس کے پاس گئے اور اسے کہا کہ تمہارے بوٹ اتار کر پھینکنے سے ہم بیدار ہو جاتے ہیں۔ آئندہ ایسا ہوا تو بس۔اگلی رات وہ نوجوان فلم دیکھ کر آیا تو جوتا اتار کر پھینکا تو اسے دھمکی یاد آ گئی۔ اس نے دوسرا جوتا اتار کر آرام سے رکھا۔ صبح نیچے فلیٹ والے اوپر آ گئے اور اسے کہا کمبخت تیرے دوسرے جوتے کے انتظار میں وہ رات بھر جاگتے رہے۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: تم محبت کو تجارت کی طرح لیتے تھے یوں نہ ہوتا تو تمہیں اس میں خسارا ہوگا