زمانہ طالب علمی میں ہمیں موسم گرما کی تعطیلات طویل ملتی تھیں لیکن ان دو ماہ کی طویل چھٹیوں کا ہوم ورک جسے گھر کا کام کہا جاسکتا ہے وہ بھی ملتا تھا چھٹیوںکا پہلا مہینہ گھومنے پھرنے اور کھیل کود میں نکل جاتا تھا دوسرے مہینے میں سکول سے ملے ہوئے ہوم ورک کو یہ کہہ کر ٹال دیتے دس دن بعد کر لینگے اور یہ ٹال مٹول آخری ہفتے میں ہمارے استاد مولا بخش کی چھڑی کو یاد کرکے گھبراہٹ میں تبدیل ہونے لگتی یہاں گھر پر کام مکمل نہ ہونے پر ڈانٹ الگ پڑتی تھی جس کے نتیجے میں جو کام ٹھیک کرنا ہو وہ بھی بگڑنے لگتا تھا کچھ ایسے ہی حالات گھبراہٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے بھی ہیں پانچ سالہ دور میں سے تین سال گزر گئے دو سال رہ گئے اب وزیر اعظم عوام کو گھبرانا نہیں ہے کا پاٹ ضرور پڑھاتے ہونگے لیکن اب وہ یا انکی جماعت یا کچن کیبنٹ گھبرا رہی ہے۔ اس گھبراہٹ میں انکی حالت بھی ہمارے زمانہ طالب علمی جیسی ہے کوئی کام ٹھیک سے ہوکر نہیں دیتا اگر دیکھا جائے ملک میں جو صورتحال اس وقت نظر آرہی ہے ایک بات واضح ہے کہ تمام سیاسی قوتیں ملک اور قومی مسائل سے لاتعلق ہیں۔ تمام سیاسی قوتوں سے مراد حکومت اور اپوزیشن دونوں ہیں۔ سیاسی قوتیں قومی مسائل کو چھوڑ کر اپنی انتخابی مہمات اور پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ میں ملوث ہیں۔ میڈیا وکلاء اور سول سوسائٹی ایک بار پھر احتجاج پر ہیں سامنے کچھ پیچھے کچھ اور ہے ٹکڑوں میں بٹی اپوزیشن کو حکومتی اقدامات کے نتیجے میں میڈیا کے احتجاج نے یکجا کر دیا ہے وکلاء اور سول سوسائٹی بھی میڈیا کی ٹرین میں اپنے ڈبے لگا رہے ہیں۔ انتہائی تعجب کیساتھ میڈیا ورکرز کی تنظیمیں اور میڈیا کے مالکان ان دنوں یک جان دو قالب ہو چکے ہیں۔ اپوزیشن کی جماعتیں اور سول سوسائٹی اور وکلاء بھی موقع کی تاڑ میں تھے موقع مل چکا ہے اور یہ موقع کسی اور نے نہیںحکومت نے خود فراہم کیا ہے۔ حکومت کو ترجیحات طے کرنا نہیں آتیں ، تبدیلی کے نام پرنئی بوتل میں پرانا مشروب بیچا جا رہاہے ۔اس وقت ملک میں موجو د پارلیمان کے دو بڑے فورمز پر جن مسائل پر بات چیت ہونی چاہیئے تھی وہ تھے افغانستان کی صورتحال ہمارا لائحہ عمل ، ایران کیساتھ تعلقات ہماری ترجیحات ، چین کیساتھ معاشی تعلق سی پیک کے ذریعے براستہ افغانستان وسطی ایشیا تک رسائی لیکن ان موضوعات پر بات کرنے کے بجائے حکومت پی ایم ڈی اے کے قانون کیساتھ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال جیسے مسائل میں الجھی ہوئی ہے اس وقت حکومت اگر قومی مسائل پر توجہ دے تو ملک میں موجود اپوزیشن کو پوائنٹ اسکورنگ کا موقع نہیں ملے گا جیسا کہ اس وقت ملک کے بڑے مسائل ہیں مہنگائی کا طوفان گرتی ہوئی معیشت کی بہتری اور اندرونی اور بیرونی دہشت گردی کی روک تھام ہیں۔ افغانستان میں حالات جب تک معمول پر نہیں آتے اس وقت پاکستان کو اتنے ہی سیکیورٹی مسائل درپیش رہیں گے جتنے کے افغانستان میں ہونگے ایسے موقع پر حکومت جن معاملات کا کٹا کھول کر بیٹھی ہوئی ہے اس دوران اگر کوئی حادثہ یا سانحہ ہوا تو اپوزیشن حکومت کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیگی۔ حکومت میں موجود اتحادی جماعتوں کو چھوڑیں پاکستان تحریک انصاف کے اندر کے حالات کی کہانی حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات نے عیاںکردی ہے اگر اب بھی وزیر اعظم اور ان کی کیبنٹ کو لگتا ہے کہ سب اچھا ہے تو پھر اسے احمقوں کی جنت میں رہنے کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ صرف اگر کوئٹہ جیسے چھوٹے شہر میں جہاں کنٹونمنٹ کے انتخابات میں پانچ نشستوں پر تحریک انصاف نے امیدوار کھڑے کئے تو تین پر کامیابی ملی لیکن جس حلقے میں یہ کنٹونمنٹ آتا ہے وہاں سے پاکستان تحریک انصاف کے پاس قومی اسمبلی کی ایک نشست اور صوبائی اسمبلی کی ایک نشست ہے لیکن اسکے باوجود کامیاب ہونے والے تین امیدواروں کے حاصل ووٹ اور شکست کا سامنا کرنے والوں کے درمیان کوئی واضح یا بڑا فرق نہیں ہے اور تحریک انصاف کی اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی نے اگر یہاں امیدوار کھڑے کئے ہوتے تو نتائج مختلف بھی ہوسکتے تھے بھلا ہو بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر جام کمال کا جنہوں نے اتحادیوں کی لاج رکھ لی سیاسی تجزیہ نگار تو کہتے ہیں کہ اگر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے انتخابی عذر داری کے کیس کا جس دن سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تو یہ نشست واپس لینا پی ٹی آئی کیلئے ایک چیلنج ہوگا جسکا ٹریلر کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخاب میں سامنے آچکا ہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت پچھلے تین سال میں اپنے منشور میں عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہ کرسکی اسکی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں ملک میں نہ کرپشن کا گراف کم ہو سکا نہ احتساب کا عمل مکمل ہو سکا موجودہ حکومت جنہیں چور لٹیرا کہتی رہی آج کوئی لندن تو کوئی ضمانت پر کراچی اور لاہور بیٹھا ہے ۔انتخابات سے قبل وزیر اعظم عمران خان جس معاشی ٹیم کی موجودگی اور اسکی مدد سے ملک کی معیشت اور گورننس کی بہتری کے دعوے کرتے تھے وہ ٹیم ٹاپ گرین وکٹ پر تاحال کھیلتی نظر نہیں آرہی ہے جو چند ایک کھلاڑی کریز پر موجود ہیں انکی کریز پر موجودگی میں انکی کرامت نہیں بلکہ اپوزیشن کی کمزور فیلڈنگ ہے اگر وزیر اعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ ان کے سیاسی کیرئر کی کپتانی عوام کو یاد رہے اور وہ سیاست کے میدان میں بھی نائنٹی ٹو کے کپتان کے طور پر یاد رکھے جائیں تو سیاسی فیصلوں پر یو ٹرن لیں غیر ضروری محاذ نہ کھولیں پی ایم ڈی اے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے کھلونوں کو سائیڈ پر رکھیں ملک کی معیشت کی بہتری، مہنگائی میں کمی کیلئے اقدامات کا آغاز کریں عالمی دبائو کو ایک طرف رکھ کر خطے کے ممالک افغانستان ایران اور چین کیساتھ معاشی رشتے اور علاقائی تجارت کا آغاز کریں تو کم از کم ان دو سال میں ان کی سیاست کا ٹیسٹ میچ ڈرا کی طرف جاسکتا ہے بصورت دیگر کسی اور کا کوئی نقصان ہو یا نہ ہو پاکستان کا جتنا نقصان ماضی میں ہوا وہ حال میں بھی ہوگا اور مستقبل میں بھی جاری رہیگا صرف اسکے ذمے داروں کی تعداد میں ایک جماعت اور ایک لیڈر کا اضافہ ہو جائیگا۔