کورکمانڈرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے علاقائی تعاون کو ضروری قرار دیا۔آئی ایس پی آر کے مطابق 216ویں کور کمانڈرز کانفرنس میں جیوسٹریٹجک صورت حال، علاقائی سلامتی، لائن آف کنٹرول اور مشرقی و مغربی سرحدی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ قومی مفاد میں ریاست کے دیگر اداروں کی حمایت جاری رکھی جائے گی اور بیرونی خطرات کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ کورکمانڈر کانفرنس میں قومی سلامتی سے متعلق وہ معاملات زیر غور لائے جاتے ہیں جو براہِ راست افواج پاکستان کے پیشہ وارانہ فرائض کا حصہ ہیں۔ پاکستان میں سول حکومتوں کی انتظامی صلاحیت ہمیشہ کمزور رہی جس کی وجہ سے گھوسٹ سکولوں و اساتذہ کی کھوج، بجلی میٹروں کے معائنہ، قدرتی آفات میں امداد، پولیو مہم میں تعاون، مردم شماری اور انتخابی انتظامات تک میں فوج کی مدد حاصل کی جاتی رہی ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے کئی علاقوں میں تعمیر و ترقی اور امن و امان برقرار رکھنے کا کام بھی افواج پاکستان انجام دے رہی ہیں۔ حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس میں مسلح افواج کے جاری آپریشنوں پر غور کیا گیا۔ ان جاری آپریشنوں میں وہ منصوبے بھی شامل ہیں جن کی مدد سے داخلی امن کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے دیگر اداروں کے ساتھ تعاون کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ آئی ایس پی آر کی فراہم کردہ تفصیلات میں اس بات کا ذکر نہیں مگر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ملک بھر میں بدعنوانی اور قبضہ مافیا کے خلاف جاری مہم میں فوجی قیادت نے یہ طے کر رکھا ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی با اثر اور طاقتور ہو اگر وہ پاکستان کے قانون اور آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی حمایت کی جائے گی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قومی مفاد میں دیگر اداروں کی حمایت جاری رکھنے کی جو بات کی ہے اسے اسی تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ وطن عزیز میں خرابیوں کی بنیادی وجہ قومی مفاد پر ریاستی اداروں کا متفق اور متحد نہ ہونا رہا ہے۔ اس بار کیفیت مختلف ہے۔ حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج ملک کو لاحق خطرات سے مل کر نمٹنا چاہتے ہیں۔ علاقائی سلامتی کے ضمن میں پاکستان مسلسل اقدامات کر رہا ہے۔ مشرقی و مغربی سرحدوں پر موجود کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے پہلے دن سے بھارت کو تمام اختلافات مذاکرات سے طے کرنے کی پیش کر رکھی ہے۔ بھارت کو بتایا جا رہا ہے کہ جنگی جنون مسائل کا حل نہیں بلکہ یہ خطے کے دیگر ممالک اور پاکستان و بھارت کے ڈیڑھ ارب شہریوں کے لیے تباہ کن ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارت پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کا غلط مطلب لے بیٹھا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ خطے میں امریکہ کی بدلتی ہوئی پالیسی بھارت کو ہر معاملے میں غلبہ دلا سکتی ہے۔ امریکہ جیسی سپرپاور اس امر کا ادراک کر چکی ہے کہ پاکستان نے خطے میں متبادل اتحاد تشکیل دے کر امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کو کسی حد تک غیر مؤثر کر دیا ہے مگر بی جے پی حکومت حقیقت کا احساس کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان نے صرف زبانی دعوے نہیں کیے بلکہ اعتماد سازی کی خاطر کرتارپور سرحد کھولنے کا فیصلہ کر کے اپنے پرخلوص ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ دوسری طرف بھارت ہے جو بار بار مذاکرات اور باہمی رابطوں سے فرار ہو رہا ہے۔ اس طرز عمل نے داخلی طور پر بی جے پی اور نریندر مودی کی مقبولیت کو متاثر کیا ہے۔ بھارت کی تین ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے نتائج اس بات کا ثبوت ہیں کہ خطے میں امن کے حوالے سے نئی حقیقتوں کا احساس بھارتی عوام میں موجود ہے۔ اگرچہ کنٹرول لائن اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی سفاکی کم ہونے میں نہیں آ رہی لیکن پاکستان کے امن اقدامات کی دنیا بھر میں ستائش ہو رہی ہے۔ اسے اخلاقی بنیادوں پر پاکستان کی برتری قرار دیا جا سکتا ہے۔ مغربی سرحد پر امن قائم کرنے کے لیے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے ہمیشہ جنگ کی بجائے مذاکرات کو افغان امن کے لیے بہتر حکمت عملی قرار دیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان سے پہلے جنرل راحیل شریف اس بات کے حامی رہے ہیں کہ پاک افغان سرحدوں پر عسکریت پسندوں کی آمدورفت روکنے کے لیے باڑ نصب کرنا ضروری ہے۔ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب مشرقی سرحد پر باڑ لگانے والا بھارت افغانستان کو باڑ کی مخالفت کا سبق پڑھا رہا ہوتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ انٹیلی جنس سربراہوں اور سیکرٹری خارجہ کے ساتھ متعدد بار افغان حکام سے مذاکرات کر چکے ہیں۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ امریکہ اور افغان حکومت بھارتی ایجنڈے کے اسیر ہو رہے ہیں۔ بھارت افغانستان کی بدامنی کو پاکستان مخالف ماحول کا رنگ دے کر یہاں تشدد کی آگ کو بھڑکائے رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان نے حالیہ دنوں امریکہ کی طرف سے ملنے والے بعض مثبت اشاروں پر واضح کیا ہے کہ امریکہ افغانستان کے دشمن کی بجائے دوست کے طور پر یہاں سے جائے۔ صدر ٹرمپ کے وزیر اعظم عمران خان کو ارسال کیے گئے خط کے بعد کچھ مزید تبدیلیاں دکھائی دینے لگی ہیں۔ امریکہ اور افغانستان نے ماسکو میں امن مذاکرات کا بائیکاٹ کیا، جنیوا میں امریکی سرپرستی میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستان کی شرکت وفود کی حد تک تھی تاہم اب طالبان قیدیوں کی رہائی کی اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ امن کی حامی قوتیں پیشقدمی کر رہی ہیں۔ افواج پاکستان نے سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ استحکام پاکستان کے لیے بے مثال کام کیا ہے۔ اس وقت جمہوریت نئی اقدار کی بنیاد رکھ رہی ہے۔ تمام ریاستی ادارے اگر قومی مفاد کو محور تسلیم کر کے ایک دوسرے سے تعاون کریں تو اندرونی و بیرونی چیلنجوں سے نمٹا جا سکتا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ اداروں کے درمیان تعاون کی اس ضرورت کو ہر سطح پر اہمیت دی جائے گی۔