آج کل قومی مفاہمتی آرڈیننس کے بڑے چرچے ہیں، بلکہ جب سے عمران خان نے زمام اقتدار سنبھالی ہے اور میاں نواز شریف ضمانت پر رہا ہو کر جاتی عمرہ سدھارے ہیں ڈرائنگ روم سرگوشیاں این آر او ہی کے گرد گھوم رہی ہیں۔ میاں نواز شریف احتساب عدالت میں اگر صحافیوں کے سوالوں کے جواب نہ دیں تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ کوئی این آر او ہو گیا ہے۔ مریم صفدر اگر سوشل میڈیا پر بہت فعال نہیں ہیں تو اسے بھی این آر او کا کمال بتایا جاتا ہے۔وزیر اعظم اور انکے ترجمان ان چیف فواد چوہدری آئے دن اعلان کرتے ہیں کہ کسی چورکو این آر او نہیں ملے گا۔ اپوزیشن واویلا شروع کر دیتی ہے کہ مانگ کون رہا ہے۔حکومت کہتی ہے کہ ہم نے تو چوروں کا کہا ہے اپوزیشن کیوں شور مچا رہی ہے۔ یہ دلچسپ مقابلہ جاری ہے لیکن اس میں جو لوگ سنجیدگی کا عنصر تلاش کر رہے ہیں انکوبہت جلد مایوسی ہونے والی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک ہی تحریری قومی مفاہمتی آرڈیننس ہوا ہے جو کہ ایک ڈکٹیٹر نے جاری کیا جو اپنوں اور غیروں کی مشترکہ سازشوں کے نتیجے میں ایک ایسی بند گلی میں پہنچ چکا تھا جہاں این آر او کرتے ہی بنی۔اس سارے دبائو کا آغاز 25 فروری 2007ء کو امریکی نائب صدر ڈک چینی کے اچانک پاکستان کے دورے سے ہوا جس میں جنرل مشرف اور امریکی نائب صدر کے مابین ملاقات خاصی ناخوشگوار بتائی جاتی ہے۔ اس وقت کے فوجی ترجمان سے لے کر دفتر خارجہ کے ترجمان تک ایک ہی بات کر رہے تھے کہ ہم کسی کی ڈکٹیشن قبول نہیں کریں گے۔ اس ملاقات کے دو ہفتے بعد ہی پہلے سے بنا ہوا جال پھیلانا شروع کر دیا گیا اور جنرل مشرف نے جسٹس افتخار چوہدری کو بر طرف کر کے اپنے ہی پائوں پر کلہاڑا مارا اور اس سازش میں بہت بڑا حصہ بھی ڈال دیا جس کے بارے میں انہیں خبر اس وقت ہوئی جب وکلاء تحریک اپنے عروج پر پہنچ گئی۔اس صورتحال میں جنرل مشرف کے لئے امریکی سیاسی مفاہمتی منصوبے کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا جو انہیں امریکہ کی سب سے بڑی سپورٹر ٹونی بلئیر کی برطانوی حکومت نے جنرل مشرف کے بہت اچھے دوست مارک لائل گرانٹ کے ذریعے پہنچایا ۔ یاد رہے مارک لائل گرانٹ جب 2003ء سے 2006ء تک پاکستان میں ہائی کمشنر تھے توصدر مشرف کی اکثر شامیں انکے ہاں گزرتی تھیں۔ تھوڑی سی لیت و لعل کے بعد جنرل مشرف نے این آر او جاری کرنے کی حامی بھر لی۔لیکن یہ این آر او سرے نہیں چڑھ سکا جس میںبحال شدہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کا ہاتھ تھا۔انہوں نے اسکا از خود نوٹس لیتے ہوئے اسے کا لعدم قرار دیدیا۔ ایم کیو ایم تو اس سے بھر پور فائدہ لے چکی تھی لیکن پیپلز پارٹی کے مقدمات دوبارہ کھل گئے جس میں سے اکثردوسرے طریقے سے ختم ہوئے۔ اس دور کا مقابلہ اگر آج کے جمہوری دور سے کیا جائے تو صورتحال بہت بدل چکی ہے۔ وزیر اعظم کے حالیہ قوم سے خطاب میں این آر او نہ کرنے کا ذکر بظاہر اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب نے جو پیکیج دیا ہے اس کے بدلے میں شریف خاندان کو کہیں کوئی رعایت دیئے جانے کا امکان تو نہیں؟کیونکہ یہاں ڈرائنگ روم گپ شپ میں اس بارے میں باتیں ہو رہی ہیں۔جن لوگوں کو شریف خاندان اور حالیہ سعودی قیادت کے تعلقات کا اندازہ ہے انہیں اس بارے میں زیادہ قائل کرنے کی ضرورت نہیں البتہ عمومی تاثر زائل کرنا حکومت کی مجبوری ہو سکتی ہے۔ دوسری وجہ اپوزیشن کا متوقع اتحاد ہو سکتا ہے جس کا اشارہ پہلے آصف زرداری نے دیا اور اب مولانا فضل الرحمن کی طرف سے آل پارٹیز کانفرنس کا اعلان ہوا ہے۔ اپوزیشن کو زچ کرنے کیلئے اس قسم کے سیاسی بیانات دئیے جاتے ہیں اور اپوزیشن بھی ترکی بہ ترکی اسکا جواب دے رہی ہے۔ اس معاملے میں جوتھوڑی گڑ بڑ نظر آتی ہے وہ وزیر اعظم کی طرف سے تیسری بار این آر او نہ دینے کی یقین دہانی ہے۔ کبھی کبھی یہ لگتا ہے کہ وزیر اعظم جیسے قوم کو ذہنی طور پر تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ایسا کچھ ہو سکتا ہے لیکن شاید کھل کر اس انتظام کے بارے میں ابھی بات کرنا انکے لئے ممکن نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ کسی طرف سے عمران خان پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کیونکہ اس معاملے میں وہ کسی دبائو کو ماننے والے نہیں۔ جو بات شاید کہی نہیں جا رہی وہ نیب کے قانون کے تحت پلی بارگین کی شق ہے۔ اگر کوئی ملزم یا مجرم لوٹی ہوئی رقم واپس کرنے پر آمادہ ہو تو تو اسکی سزا ختم ہو جاتی ہے۔ یہ وہ واحد راستہ ہے جو بہت سے سیاسی لوگوں کیلئے نجات کا باعث بن سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی یہ راستہ اپنانے کو تیار ہے۔ افواہیں بہت ہیں کہ چند بڑے لیڈروں کو کہا گیا ہے کہ وہ ایک خاص رقم ادا کر کے مقدمات سے بچ سکتے ہیں۔لیکن سیاسی ساکھ کو دائو پر لگانا اتنا ہی آسان ہوتا تو آصف زرداری گیارہ سال جیل نہ کاٹتے اور نہ ہی نواز شریف جیل جاتے۔این آر او دینا حکومت کے بس میں بالکل نہیں ہے۔ اگر کوئی لینا چاہتا ہے تو اسکے لئے واحد راستہ پلی بارگین ہے۔