مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف جب والدہ کی وفات پر رہا ہوئے تو انھوں نے ملکی مسائل کے حل کے لئے تجویز پیش کی کہ قومی سطح پر مکالمے کی ضرورت ہے ۔ابھی شہاز شریف کے اس بیان کی خوشبو ماند بھی نہیں پڑی تھی کہ ان کی جماعت کی نائب صدراور تاحیات قائدنوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے آریا پار کا نعرہ مستانہ بلند کیا ۔شہباز شریف سے جب قومی مکالمے کے خدوشال کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ جیل میںہونے کے باعث وہ اس قومی مکالمے کی تفصیل دینے سے قاصر ہے ۔ماضی میں بھی مسلم لیگ (ن) پوری قوم کو اس طرح کے شوبازیوں اور ڈرامہ بازیوں کے شوشے چھوڑ کر ان کو بے وقوف بناتی رہی ہے ۔قومی مکالمے کا شوشہ چھوڑنے سے قبل شہباز شریف کو چاہئے تھا کہ وہ کم از کم اپنے خاندان میں مکالمہ تو کرتے کہ ان کی بھتیجی مریم نواز کو آر یا پار کا بیان نہ دینا پڑتا۔ جو اپنے گھر میں مکالمے کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ قومی سطح پر کیا مکالمہ کریںگے ؟گھر میں اگر وہ مکالمہ نہیں کر سکتے تو اپنی جماعت میں ہی مکالمہ کرتے تاکہ ان کی جماعت کے ذمہ دار آریا پار کا نعرہ بلند کرنے سے مریم نواز کو روکنے کی کوشش کرتے لیکن وہ نہ اپنے خاندان میں مکالمے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ اپنی جماعت میں اس لئے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کا ایک نمائشی سربراہ ہے ۔شہباز شریف کے بیان کے بعد اخبارات کے صفحات اور ٹیلی ویژن پر پروگرامات میں بحث جاری ہے ۔ہر کوئی اپنی دانش اور سمجھ کے مطابق شہباز شریف کے اس خود ساختہ اور نام نہاد قومی مکالمے کی تجویز پر زمین و آسمان کے قلابے ملارہا ہے ۔دانشوروں کی اکثریت یہی لکھ اور بول رہی ہے کہ ملکی مسائل کا حل وہی ہے جو شہباز شریف نے پیش کیا ہے یعنی ’’ قومی سطح پر مکالمہ ‘‘۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی سیاسی تاریخ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ آئین کو پس پشت ڈالتے ہیں ۔ جمہوریت کا راگ تو یہ الاپتے ہیں لیکن جمہوریت کا خون کرنے سے باز نہیں آتے ۔عوامی حقوق کا نعرہ بلند کرتے تو ہیں لیکن عوام کے حقوق کو غصب کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔میرٹ کا قتل عام کرتے ہیں ۔ اقرباپروری اور ذاتی دو ستیاں نبھانے کے لئے ہر ضابطے اور قانون کو پامال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔اداروں کو مضبوط اور مستحکم کرنے کی بجائے ان کو لوٹتے اور کمزور کرتے ہیں ۔دور جانے کی ضرورت نہیں 1988 ء سے اکتوبر 1999 ء تک یہی دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف لڑتی رہی ۔ آئین ،قانون،جمہوریت اوراخلاقی قدروں کی کونسی دیوار ایسی ہے جس کو بے دردی کے ساتھ ان دونوں جماعتوں نے اس دوران پامال نہیں کیا ۔بدعنوانی کا کونسا ایسا الزام ہے جس سے ان دونوں جماعتوں کے قائدین نے ایک دوسرے کو نواز انہیں ۔اکتوبر 1999 ء میں جب جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف کی حکومت کو برطرف کیا ،بعد میں شریف خاندان نے جس بے شرمی کے ساتھ ساز باز کرکے وطن چھوڑا جبکہ پارٹی کے کارکن ظلم وجبر برداشت کرتے رہے ۔بے نظیر بھٹو نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی اور دیار غیرمیں اپنے بچوں کے ساتھ خوشی خوشی زندگی بسر کرنے لگی ۔مئی 2006ء میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے برطانیہ میں میثاق جمہوریت کا معاہدہ کیا ۔دسمبر 2007 ء میں بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا اور پیپلز پارٹی زرداری خاندان کی میراث بن گئی ۔ دونوں جماعتوں کے درمیان معاہدہ موجود تھا لیکن شہباز شریف نے نعرہ بلند کیا کہ زرداری کو کراچی اور لاڑکانہ کے سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام بدل لینا ۔انھوں نے آصف علی زرداری کو ’’ زر بابا ‘‘ کا خطاب بھی دیا ۔مریم نواز نے ’’ عمران ، زرداری، بھائی بھائی ‘‘ کا نعرہ لگایا ۔2013ء کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو آپ بلاول زرداری کے بیانات اٹھا کر دیکھ لیں انھوں نے کونسا الزام ایساہے جو شریف خاندان پر نہیں لگایا ۔اپنے دور حکومت میں پنجاب میں گورنر راج نافذ کیا ۔2018 ء میں انتخابات سے چند مہینے قبل غیر جمہوری قوتوں کا آلہ کار بن کر بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کی ۔مارچ 2018 میں سلیکٹر کے مشورے پر صادق سنجرانی کا ساتھ دیا ۔پھرجب ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تو اپنے ان ارکان کا کوئی محاسبہ نہیں کیا جنھوں نے اس تحریک میں پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی تھی ۔سروسز چیفس بل پر جس خاموشی سے حکومت کا ساتھ دیا وہ جمہوریت کے چہرے پر بدنما داغ ہے ۔ شہباز شریف کی قومی مکالمے کی بات بالکل غلط جبکہ مریم نواز کا نعرہ بالکل درست ہے کہ اب آریا پار کا وقت ہے ۔ جوسیاسی جماعتیں گزشتہ تین عشروں میں ایک دوسرے پر بدعنوانی کے الزامات لگاتی رہی ۔ جنھوں نے ایک دوسرے پر بدعنوانی کے مقدمات بنائے ۔جن دو خاندانوں نے سیاسی دشمنی میں خاندان کی خواتین تک کو نہیں بخشا ان کے خلاف اب آر یا پار کی ضرورت ہے ۔جنھون نے میثاق جمہوریت کی پاسداری نہیں کی ۔جو گزشتہ بارہ سالوں میں کراچی کا کچرا نہ اٹھا سکے ۔جو تھر پارکرمیں بھوک سے مرتے بچوں کو خوراک فراہم نہ کرسکے ۔جو دس سال تک پنجاب کے حکمران رہے لیکن پنجاب کی محرومیوں کو ختم نہ کرسکے ۔جنھوں نے عشرں تک حکومت کی لیکن عام آدمی کو تعلیم ، صحت ، صاف پانی ، ملاوٹ سے پاک خوراک اور ادویات فراہم نہ کرسکے ۔جنھوں نے قومی اداروں ،ریلوے ، پی آئی اے ،پوسٹل سروس ، سٹیل مل ،پی ٹی وی ،ریڈیو پاکستان اور دیگر اداروں کو برباد کیا ۔ جو اپنی جماعتوں میں جمہوریت نفاذ نہ کر سکے ۔جو عشروں سے ڈرامہ بازیاں کر رہے ہیں ۔جوذاتی مفاد کے تحفظ کے لئے کبھی ایک اور کبھی دوسرا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں ان کے خلاف مریم کا مشورہ ہی درست ہے کہ اب مکالمہ کی نہیں بلکہ ان کے خلاف آر یاپار کی ضرورت ہے ۔ اگر موجودہ حکمران نے روش نہ بدلی تو ان کے خلاف بھی آریا پار ہی ہوگا ۔