میرے کمرے میں پڑے ہیں میری قسمت کے نجوم ہر طرف بکھرے رسالے اور کتابوں کا ہجوم اب جگہ کافی نہیں ہے میرے رہنے کے لئے میں نے کتنا پڑھ لیا ہے کچھ نہ کہنے کے لئے میرے معزز قارئین میں جہاں آیا ہوں وہاں کتب کا جہان اور کتب سے پہچان ہے کہ کتابوں سے روشنی‘ زندگی ‘ تابندگی اور امن حاصل کرنا ہے آپ سمجھ گئے ہونگے کہ میں قومی تاریخ وادی ورثہ ڈویژن کے زیر اہتمام ہونے والے دسویں سالانہ قومی کتاب میلہ کے افتتاحی اجلاس میں ہوں چونکہ پاک چائنا فرینڈ شپ سنٹر اسلام آباد میں 19تا 21اپریل 2019ء کے لئے برپا ہے اور جس کے مدار المہام یا روح و رواں ڈاکٹر انعام الحق جاوید ہیں۔ ماٹو جس کا یہ ہے کہ ’’کتاب تعلیمی ترقی کی ضامن ہے‘‘۔ یہ کتاب میلہ ایک طرف ایک سنہری روایت بن چکا ہے‘ دوسری طرف ملک بھر سے ہی نہیں دنیا بھر سے اردو جاننے اور بولنے والے ادیب اس اکٹھ کا انتظار کرتے ہیں۔ اردو ہی نہیں ہماری علاقائی زبانوں کے ادیب بھی آتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں کتنے ہی پیاروں سے ملاقات ہوتی ہے۔ مکالمے کا موقع ملتا ہے اور مسرت کے لمحات میسر آتے ہیں۔ اس مرتبہ ہماری حیرت اور انبساط کا باعث افتتاحی تقریب میں ہمارے مہمان خصوصی اور صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی علمی اور شگفتہ تقریر تھی۔ ان سے پیشتر ہمارے وفاقی وزیر شفقت محمود اپنے اظہار خیال میں یہ کہہ چکے تھے کہ عوام کے لئے خوشخبری ہے کہ ان کی طبیعت ہرگز ٹھیک نہیں ہے اس لئے وہ مختصر ترین تقریر کریں گے۔ اس پر ڈاکٹر عارف علوی نے گرہ یہ لگائی کہ وہ شفقت محمود کی طرح بالکل بھی ناساز طبیعت نہیں رکھتے۔ گویا کہ آپ ایک لمبی تقریر کے لئے تیار ہو جائیں۔ مزے کی بات یہ کہ ان کی تقریر اتنی مزین اور دلچسپ تھی کہ سب ادیب اور شاعر ہمہ تن گوش رہے اور ڈرامے کی اصطلاح میں انہوں نے بار بار کلپ لی۔ ظاہر ہے کالم ان کی ساری باتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا مگر ایک بات تو انہوں نے بہت ہی خوبصورت کی کہ یہ بات نہیں کہ کتاب کاغذ پر ہو یا کمپیوٹر پر۔ اصل بات تو علم ہے جو ہمیں اس سے حاصل کرنا ہے ۔ یہ کہنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ شفقت محمود یہ کہہ گئے کہ جس تیزی سے کمپیوٹر پر ڈیٹا جا رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کتاب معدوم ہو جائے۔ اس پر میزبانی کرنے والے ہمارے پیارے محبوب ظفر نے کہا کہ جتنے مرضی کمپوٹر آ جائیں کتاب کبھی نہیں مرے گی‘ وہ ہمیشہ زندہ رہے گی۔ کو میزبان قراۃ العین نے بھی کچھ ایسی ہی بات کی۔ دونوں میزبانوں نے نظامت خوب نبھائی ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ وہ بھی کتابوں کے عاشق ہیں اور انہیں کتاب پڑھنے کا نشہ ہے۔ کہنے لگے انہوں نے کچھ کتابوں کی سطور کو انڈر لائن کر کے سٹاف سے ایک جگہ اکٹھی کر لیں تاکہ جب میں تقریر کروں تو پڑھے لکھوں میں کچھ پڑھا لکھا لگوں۔ یہ تو تفنن طبع کے تحت تھا مگر صاحب انہوں نے اپنی علمیت کی دھاک بٹھائی۔ ایسے ہی فراز یاد آ گئے: منظر کب سے تحیّر ہے تری تقریر کا بات کر تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا ڈاکٹر انعام الحق جاوید جو نیشنل بک فائونڈیشن کے لئے ہی جیتے مرتے ہیں ایک آئیڈیا میکر قسم کے متحرک انسان ہیں وہ خود کہاں ہوتے ہیں اور دماغ کہاں‘ کتاب میلے کا پھیلائو دیکھ کر ان کی جناتی صفات کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ان کا ادارہ 100سے زیادہ معیاری اور سستی کتب شائع کر چکا ہے درسی کتب ایک الگ کارنامہ ہے۔ اس کتب میلے میں 185کتب سٹال لگے ہیں۔65سے زیادہ پروگرام رکھے گئے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ انعام الحق جاویدکی طرح کوئی بندہ ہو سکتا ہے کہ اٹھتے بیٹھتے اور سوتے جاگتے ادارے کی بہتری کے لئے سوچتا ہو۔ ایسے ہی ایک شعر یاد آ گیا: تیرے بارے سوچنا سوچنا بھی رات دن پھر بھی مجھ کو یوں لگا میں نے سوچا کچھ نہیں مجھے یہ بھی بتانا تھا کہ اس عظیم تقریب کا آغاز اللہ کے پاک کلام سے ہوا۔ خاص طور پر وحی کی پہلی پانچ آیات کہ پڑھ اپنے رب کے نام سے کہ جس نے پیدا کیا۔ اس نے جمے ہوئے خون سے تجھے پیدا کیا۔ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے علم سکھایا قلم سے وہ سکھایا جو انسان نہیں جانتا تھا۔ ہماری تو اساس ہی قلم و قرطاس ہے اور اس کی حرمت ہے تبھی تو کتاب بینی کو سنت کہا گیا۔ آغاز میں ترانہ بھی تھا اور بچوں کا کتاب گیت بھی جو ہمارے دوست طارق نعیم کا لکھا ہوا ہے: یہ کتابوں کی دنیا سلامت رہے روشنی دوستی کی علامت رہے تعارفی کلمات سیکرٹری قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن انجینئر عامر حسن نے ادا کئے لیکن رہ رہ کے ہمارا دھیان مسعود مفتی کی طرف گیا کہ وہ بھی سٹیج پر تھے‘ ان کے خیالات سننے میں کیا مضائقہ تھا۔ کیا اتنا بڑا فکشن رائٹر صرف شو پیس کے طور پر بٹھایا گیا تھا دیکھا جائے تو وہی ادیبوں اور دانشوروں کے نمائندہ تھے۔ دوسری بات جو مجھے ہمیشہ تکلیف دیتی ہے اور میں اس کے اظہار سے نہیں رہ سکتا کہ بیورو کریسی، اگلی قطار بیورو کریٹس وغیرہ کے لئے قبضے میں رکھتی ہے وہاں مخصوص لوگ بیٹھے رہتے ہیں اور عین وقت پر وہاں جگہ بیورو کریٹ کے لئے خالی کرا لی جاتی ہیں۔دوستو یہ کتاب میلہ کی تقریب ہے یہ عزت کی جگہ صرف ہمارے سینئر ادیبوں کی ہے۔ آئندہ صدر پاکستان کو اپنے سامنے ادیبوں کو بٹھانا چاہیے۔ یہ الگ بات کہ ڈاکٹر انعام الحق نے اس کمی بیشی کو بیان کرنے کے لئے قمر لدھیانوی کا شعر پڑھا: زندگی میلہ ہے میلے میں قرینہ کیسا اتنا محتاط ہی رہنا ہے تو جینا کیسا بہرحال انتظامات انہوں نے بہت کئے ہوئے تھے ۔ کوئی کہیں اور کوئی کہیں ٹھہرایا گیا تھا۔ ہم بھی ان کے مہمان تھے مگر ہمیں طرحدار شاعر قمرریاض نے ہائی جیک کیا اور ہم نجی ہوٹل میں آن ٹھہرے۔ وہیں سلمان جاذب اور یاسر آ گئے۔ پھر ڈاکٹر صغریٰ صدف آ گئی‘ خوب گپ شپ ہوئی۔ یہ محفلیں ان تقاریب کا اضافی فائدہ ہوتا ہے۔ افتتاحی تقریب کے بعد آنے والوں کے لئے صبر ہی تھا کہ طعام کے لئے ہاتھ کھینچا گیا تھا کہ حکومت کی طرف سے یہاں بھی بچت سکیم چلائی گئی تھی۔ ہم نے بھی وہاں لگے سٹالز پر جا کر چاٹ واٹ اور گول گپے کھائے۔ رات کو مشاعرہ تھا اور مشاعرے کا حال پھربیان کریں گے۔ بہرحال کتاب میلہ کتاب بینی کی عادت کو فروغ دینے کے لئے ازحد ضروری ہے۔