خانیوال میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے دو سینئر افسران دہشت گردی کی زد میں آئے، قوم کو شدید صدمہ ہوا، حسب روایت صوبے کے اعلیٰ حکام اور عسکری قائدین جنازہ میں شریک ہوئے اور وفاقی سطح پر وزیر اعظم پاکستان نے مدرسہ لیڈرشپ کو اپنے ہاں ملاقات کے لیے مدعو کر لیا۔ فوٹو سیشن، روایتی اعلامیہ، دہشت گردوں کے ساٹھ آہنی ہاتھوں سے نپٹنے کے عزم کے اظہار و اعلان جیسے اہتمامات کے ساتھ،معاملہ پر ضروری کارروائی مکمل ہوگئی۔ نصف صدی ہونے کو آرہی ہے، ایسے کتنے ہی حادثات اور سانحات ہوئے اور ہوتے چلے جارہے ہیں، ریاستی اور حکومتی سطح پر کوئی مستقل ادارہ، تھنک ٹینک، قومی کمیشن، اتھارٹی آج تک معرضِ عمل میں نہ آسکی، جو اِن امور پر ہمہ وقت اور مستقل بنیادوں پر سوچ وبچار کر کے عملی لائحہ عمل مرتب کر سکے۔ گزشتہ صدی کی آخری دہائیوں میں خطّہ پاک میں فرقہ وارانہ دہشت گردی اور مسلکی اختلافات کے سائے اتنے گھمبیر اور خوفناک ہوئے کہ انہوں نے دہشت گردی کی شکل اختیار کر لی۔ یہ پاکستان میں دینی خطابت کے عروج کا زمانہ تھا، بڑے بڑے دینی اجتماعات بر سرِ عام منعقد ہوتے، مختلف مسالک کے شعلہ نوا خطیب اور جیّد علماء کو بلا تفریق مسلک، عوامی پذیرائی میسر تھی۔ مقررین اور خطباء کی تقاریر سے حذ اٹھانے اور لطف لینے کے لیے، ایک دوسرے کی مساجد میں جانے پر بھی کوئی قدغن اور روک ٹوک نہ تھی۔بعض اوقات ان پر اگر مناظرانہ یا مجادلانہ رنگ غالب آنے کا اندیشہ ہوتا تو بزرگ دینی عمائدین، بلا توقف آگے بڑھتے اور بقائے باہمی کا ماحول استوار ہوجاتا۔ مَیں نے از خود 1983ء میں اپنے آبائی علاقے میں مولانا شفیع اوکاڑوی، مولانا سیّد عبد القادر آزاد، سیّد نسیم عباس رضوی، مولانا محمد اجمل خاں، جیسے مختلف مسالک کے متبحر علماء کو ایک ہی وقت میں ایک ہی سٹیج پر خطاب کرتے دیکھا اور سنا۔ افغان وار اور غیر ملکی مداخلت سے ہمارا پْرامن مذہبی ماحول بتدریج متاثر ہونے لگا۔ محرم کے ایام میں نیوکیمپس سے ایک سپیشل بس عزاداران حسینؑ کو لے کر جامعۃ المنتظر سمیت لاہور کی نمائندہ مجالس میں جاتی تھی۔ پھر حالات تبدیل ہونے لگے، تو امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو نیو کیمپس کے سٹوڈنٹ ٹیچر سینٹر (STC) میں، محرم الحرام کے حوالے سے پروگرام کرنے سے روک دیا گیا، تو ان کی جوابی کارروائی سے اسلامی جمعیت طلبہ کی یونیورسٹی لیڈر شپ پر کاری ضرب لگی اور کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوگیا۔ اب مذہبی دنیا میں کلاشنکوف پہنچ چکی تھی اور پھر اس کے بعد سپاہِ صحابہ، لشکر ِ طیبہ، جیش محمد اور نہ جانے کیا کیا ---؟نوّیں کی دھائی کے آخری سالوں میں سرکاری اور حکومتی سطح پر مسالک اور مکاتب کے دوران مفاہمتی اور مصالحتی عمل کا آغاز، پنجاب سے ہوا۔ ایسی لیڈر شپ کو جیلوں سے نکال کر مذاکرات کی میز پر بٹھادیا گیا۔پنجاب میں متحدہ علمابورڈ قائم کرکے، تمام مسالک کے معتبر،موثر اور جید علماکواسمیں شامل کیاگیا،تحریراورتقریر کے لیے ضابطہ اخلا ق مرتب ہوا۔’’راہنما اصول‘‘وضع کئے گئے۔ تکفیری کا رروائیوں کا تدارک ہوا۔ اشتعال انگیز لیٹریچر اور تو ہین آمیز خطبات پر سرکاری ضابطے کے تحت کاررائیوں کا آغاز ہوا۔ اسی اثنامیں 9/11 کے واقعات رونما ہوگئے، انتہاپسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے،جدت پسندی اور روشن خیالی کوفروغ دیا جانا، ملکی استحکام کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔ مدارس اور مدرسہ ایجوکیشن کو بین الاقوامی سطح پر معتوب جانا گیا اور اس کی’’ریفارمز‘‘اور مین سٹریمنگ کے لیے نت نئے پراجیکٹ اور پروگرام متعارف کروانے کا اہتمام ہوا۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر ’’مدرسہ ایجوکیشن بورڈ‘‘کی تشکیل کے لیے، وفاقی سطح پر باضابطہ آرڈنینس منظور ہوا۔ روایتی اور مروجہ مدرسہ سسٹم، جو پرائیویٹ سیکٹرمیں سرگرم عمل تھا، کے مقابل سرکاری سطح پر ماڈل دینی مدارس کا قیام بڑے زوروشور سے عمل میں لایا گیا، مگر سود مند ثابت نہ ہوسکا۔کم ازکم گذشتہ ربع صدی کے واقعات و حوادث جو ھماری نظروں کے سامنے ہیں ، اس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ انتہاپسندانہ رحجانات کی علمی،عملی،نظری اور فکری سطح پر بیخ کنی کیلئے کوئی مستقل پیش بندی ممکن نہ ہوسکی۔ ایسے حادثات کے بعد علما یامذھبی قائدین سے ملاقات کو تو یوں ناگزیرجاناجاتا ہے ،جیسے یہ درد انکے دیئے ہوئے ہیں۔ حالانکہ انکے تواپنے کئی مسائل،جنکا درماں سرکاری سطح پرھونا تھا،نہ ھوسکا،مدارس کی رجسٹریشن کہاں ہونی ہے۔۔۔۔؟ کبھی ایجوکیشن،کبھی مذھبی امور، کبھی انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ اور اب وزیراعظم سے حالیہ میٹنگ کے نتیجے میں متعلقہ ڈی سی کے پاس ہوگی۔ اسی طرح مدارس کی ڈگریوں کو سرکاری سطح پر تسلیم کئے جانے کا معاملہ ہے۔ بہرحال۔۔۔۔ ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی درد بیچارا پریشاں ہے کہاں سے اٹھے وطنِ عزیز پاکستان میں، قومی سلامتی، مِلّی یکجہتی اور ملکی استحکام حوالے سے حسبِ ذیل امور فوری توجہ طلب ہیں: i۔قومی سطح پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا فقدانii۔انتہا پسندی اور تشدّد پرستی کی ترویجiii۔تکفیریت کے رجحانات میں اضافہ iv۔مخصوص دینی مدارس میں’’جہادی فکر‘‘کا فروغ v۔محراب و منبر کی قومی سلامتی کے امور سے لاتعلقیvi۔آئمہ وخطباء کے غیر موثر خطبات اور ان کی شخصیت کی نا مناسب پر داخت "Growth" vii۔مدرسہ ایجوکیشن کی’’مین سٹریمنگ‘‘کا معاملہ۔اسباب: i۔گزشتہ 75 سال سے دین اور دینی اداروں سے ریاست اور حکومت کی لاتعلقیii۔’’مدرسہ ایجوکیشن ‘‘پر پرائیویٹ سیکٹر کا مکمل کنٹرولiii۔علماء اور خطباء کیلیے کسی قومی ادارے کی عدم موجودگیiv۔ریاستی سطح پر’’پالیسی سازی‘‘یا، پالیسی ساز ادارے کا فقدان ٭۔فوری اقدامات:i۔’’سینٹر آف ایکسیلنس‘‘ کا قیام، جہاں آئمہ و خطباء کی شخصیت کی پرداخت"Growth" ہوii۔دینی طبقات میں، قومی سلامتی کے تقاضوں سے آگاہی کا شعور اجاگر کرنا iii۔ بین المسالک ہم آہنگی کے لیے ذہن سازی ہو iv۔ تصوّف، تزکیہ اور صوفیاء کے نظام فکر و عمل کا ابلاغ ہو v۔بین المذاہب مکالمے کی ترویج ہوvi۔ریاست اور حکومت کا دینی طبقات بالخصوص محراب ومنبرمیں رسوخ"Penetration" ہو۔vii۔دینی مدارس کے فارغ التحصیل فضلا ء کے لیے ’’لیڈنگ ٹو یونیورسٹی ایجوکیشن پروگرام‘‘ کی تشکیل ہو، جس میں وہ ایم فِل، پی ایچ ڈی وغیرہ کر سکیں۔مسجد، مدرسہ اور خانقاہ، آج بھی ہماری سوسائٹی کا نیوکلس ہیں،ہمارے سماج کا اَسّی فیصد حصہ کسی نہ کسی طرح ان انسٹیٹیوشنز سے وابستہ اور بالخصوص دینی راہنمائی کے لیے ان پر کامل اعتماد اور اعتقاد رکھتا ہے۔ شومئی قسمت سوسائٹی کے ان کلیدی دینی اور روحانی مراکز پر جتنی موثر اور معتبر شخصیات بر اجمان ہونی چائیں، ویسی دستیاب نہ ہیں، اورنہ ہی ایسی شخصیات کی تخلیق اور تشکیل کی طرف کوئی نجی یا ریاستی ادارہ متوجہ ہے۔ بایں وجہ ان اداروں سے تعمیر کم اور تخریب زیادہ ہورہی ہے، افسر شاہی اور ریاستی ادارے خواہش اور کوشش کے باوجود، ان شعبوں میں’’ڈلیور‘‘نہ کر پارہے ہیں، جس کا بنیادی سبب ’’ٹائم لائن‘‘اور"Frequency" کا تفاوت اور فقدان ہے۔ جو کہ ایک فطری امر ہے، اس لیے گرائمر سکولوں کے پروردہ، دینی اداروں کے تقاضوں، مسائل اور"Dynamics"کا ادراک کبھی نہیں کر سکتے۔ چنانچہ اس وقت قومی سطح پر ایک ایسے ادارے کی اشد ضرورت ہے، جو مسجد،مدرسہ اور خانقاہ کے ذمہ داران سے اشتراک عمل کا باعث بن سکے،جہاں مختلف مسالک کے علماء کو کسی پروگرام، پراجیکٹ، کورس، سمپوزیم، سیمینار کے لیے تین یوم، سات یوم، ایک ماہ یا تین ماہ کے لیے سرکاری سطح پر مجتمع ہونے کا موقع میسر ہو، ایک ایسا قومی ادارہ قائم ہو، جہاں قومی سلامتی کے تقاضے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، بین المذاہب مکالمہ اور مدرسہ کے فارغ التحصیل حضرات کے لیے معاش کے نئے امکانات، ان کی شخصیت کی گروتھ اور قومی اور بین الاقوامی امور سے آگاہی جیسے عنوانات زیر غور آئیں، تاکہ وہ ملکی ترقی اور قومی یکجہتی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔