انڈس ہسپتال کے بانی ڈاکٹر عبدالباری کی کہانی ‘ ان کی اپنی زبانی‘ اس کا عنوان بھی‘ انہی کی گفتگو سے لیا گیا ہے میں ایک واقعہ آپ کو ضرور سناتا ہوں، جو مجھے تحریک دیتا ہے‘ مجھے بے چین رکھتا ہے میرا ایک مریض تھا جس کے دل کا ’’والو‘‘ میں نے تبدیل کیا تھا۔یہ افغانی نان بائی ناظم آباد کے کسی علاقے میں کام کرتا تھا، سال دو سال تک تو معمولی کے چیک اپ کے لئے آتا رہا پھر غائب ہو گیا‘دو تین سال کے بعد میں ایک دن ’’او پی ڈی ‘‘ تھا مجھے وہاں سے یونیورسٹی کی ایک میٹنگ کے لئے جلدی اٹھنا پڑا۔میٹنگ دیر تک چلتی رہی اور میں واپس او پی ڈی میں نہیں جا سکا‘ جب میں گھر کی طرف واپس جا رہا تھا تو ڈرائیور نے کہا‘ سر وہ افغانی مریض آج آیا تھا وہ آپ کیلئے ایک پوٹلی دے گیا ہے‘ اس پوٹلی کے اندر تھوڑے سے بادام‘ تھوڑے کاجو‘ کشمش اور چند ایک اخروٹ تھے۔ ڈرائیور نے کہا‘ ڈاکٹر صاحب وہ آپ کے لئے ایک پیغام بھی دے گیا ہے‘ اس نے کہا ڈاکٹر صاحب سے کہنا میری والدہ نے آپ کے لئے سلام کہا ہے اور دوسری بات یہ کہ میر ی والدہ ہر نماز کے بعد دو نوافل نماز آپ کیلئے پڑتی ہیں‘ ہماری اپنی نمازوں کا ہمیں پتہ ہی ہے کہ ان نمازوں کی کوالٹی کیا ہے‘ ایک عورت ہزاروں میل دور جو کبھی ملی نہ اس نے مجھے دیکھا، ہر نماز کے بعد میرے لئے دو نوافل ادا کرے‘ محض اس لئے کہ میں نے اسکے بیٹے کا علاج کیا تھا‘ جو ڈاکٹر کے طور پر میرا فرض بھی ہے‘ یہ خلوص اور محبت میں اربوں‘ کھربوں روپے خرچ کر کے بھی نہیں خرید سکتا تھا‘ اللہ تعالیٰ اس نیک دل‘ نیک سیرت خاتون کو جزائے خیر دے‘ آمین! سچ یہ ہے کہ آج میں جہاں کھڑا ہوں یہ میرے والدین کی وجہ سے ہے ‘ میرے والد صاحب تہجد گزار انسان تھے ان کی عادت تھی وہ بآواز بلند دعا کیا کرتے تھے، اپنے بہن بھائی ان کے بچوں کے الگ الگ نام لے کر دعائیں کیا کرتے۔ساری زندگی ان کے منہ سے اپنے لئے صرف ایک دعا سنی کہ باری تعالیٰ میرے بیٹے کو خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ ڈاکٹر بنانا‘ نہ دولت کے لئے‘نہ شہرت کے لئے نہ عزت کے لئے‘ ڈائو میڈیکل کالج سے سفر شروع ہوا، جس کے ساتھ سول ہسپتال منسلک تھا‘ جہاں پر مریض پورے سندھ اور اردگرد بلوچستان تک سے آیا کرتے تھے کوئی اپنی بکری بیچ کر آتا‘ کوئی بھینس اور کوئی اپنی اولاد یا ماں باپ کے لئے گھر تک فروخت کر چکا ہوتا تھا، بہت سارے ایسے ہوتے جو جواں سال اولاد کے لئے ڈاکٹروں سے گڑ گڑا کر درخواست کرتے کہ ڈاکٹر خدا کے لئے میرے بچے کو بچا لینا۔ڈائومیڈیکل کالج نے سٹوڈنٹس ویلفیئر ایسوسی ایشن بنائی ،میں بھی اس میں شامل ہو گیا۔ 1980ء میں ان دنوں مریضوں کے لئے خون کی دستیابی کا کوئی وسیلہ اس کے سوا نہیں تھا کہ منشیات کے عادی نشہ باز اپنی نشہ کی عادت اور ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اپنا خون بیچتے ایک عام آدمی تین مہینے میں ایک بار خون دے سکتا ہے۔یہ عادی بیمار لوگ ہفتے میں ایک کبھی دو بار اپنا خون فروخت کر دیتے‘ اس میں خون کے سوا سب کچھ ہوتا تھا۔ایچ آئی وی‘ ہیپاٹائٹس‘ ملیریا اور کئی ایک بیماریوں کے جراثیم‘ ہم نے اپنے ساتھیوں کو ترغیب دی پھر سوچا کہ ہم اپنا بلڈ بنک بنائیں گے تاکہ ہم درماندہ اور بے وسیلہ لوگوں کی مدد کر سکیں۔ہم نے 1982ء میں پہلا رضا کارانہ خون عطیہ کرنے والوں کا بلڈ بنک وجود میں آیا۔میری خوش قسمتی کہ مجھے اس کا پہلا پراجیکٹ ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔لوگوں کو خون دینے کے لئے آمادہ کرنا ایک مشکل اور صبر آزما کام تھا۔مجھے ایک عورت یاد ہے جس کے بچے کی پیدائش میں بہت خون ضائع ہو گیا، اس کی زندگی بچانے کے لئے خون کی فوری ضرورت تھی یہ پختون عورت تھی زندگی اور موت کی دہلیز پر پڑی‘ اس عورت کے شوہر کو پرزور دلائل کے ساتھ خون دینے کی درخواست کر رہا تھا۔لیکن وہ کسی طور آمادہ نہیں تھا۔اس کو سمجھایا کہ اگر تم نے خون نہیں دیا تو تمہاری بیوی مر جائے گی۔ تو اس نے کہا‘ اگر میں نے اسے خون دیا تو خون کے رشتے سے وہ میری بہن بن جائے گی۔اب اسے میں نے بتایا کہ خون دینے سے کوئی بھائی بہن نہیں بن جاتا، جو والدین سے پیدا ہوتا ہے وہی بہن بھائی ہوتے ہیں‘ ہزار جتن سے منایا تو بالآخر وہ مان گیا‘ اب خون لینے کیلئے اسے لیبارٹری کی طرف لے جا رہا تھا، راستے میں اس کا باپ مل گیا‘ اس نے اپنے بیٹے سے پوچھا کدھر جا رہے ہو؟ اسے بتایا تو اس کا والد بہت ناراض ہو گیا اور اس نے کہا اگر تم نے خون دیا تو میں ابھی دیوار سے سر پھوڑ کر مر جائوں گا‘والد کو ہم نے سمجھایا کہ اگر خون نہیں دیا تو آپ کی بہو مر جائے گی، تو اس نے جواب میں کہا مرتی ہے تو مر جانے دو ،ہم اس کے لئے نئی بیوی لائے گا۔ان حالات میں بلڈ بنک کے لئے کوئی ایک رضا کار مل جاتا اگر کسی دن دو یونٹ خون مل جاتا تو ہم خوشی میں پارٹی کیا کرتے تھے۔آج وہی بلڈ بنک ڈائو میڈیکل کالج کے طالب علم چلاتے ہیں تو 270سے 300یونٹ تک خون روزانہ مل جاتا ہے‘ پیشہ ور خون دینے والے ختم ہو گئے ہیں ‘ اس پر ہم اپنے رب کے شکر گزار ہیں۔ 1986ء میں پہلا بم دھماکہ بوہری بازار میں ہوا تھا‘ بوہری بازار کراچی کے اس دھماکے میں سینکڑوں لوگ شہید ہو گئے۔ ہزاروں لوگ زخمی تھے‘ انہیں دنوں میں نے ’’ہائوس جاب‘‘ شروع کیا تھا۔مجھے یاد ہے لاشوں میں سے زخمی نکال رہے تھے‘ ان زخمیوں کو فرش پر لٹا کر ان کا علاج کیا گیا ان مشکل حالات میں ایک اچھی بات یہ نظر آئی اس وقت ہسپتال کے باہر میلوں تک لمبی قطار نظر آئی جو خون دینے کے لئے رضا کارانہ آئے اور انتظار کرتے رہے۔بہت سارے لوگ شاپنگ بیگ میں لاکھوں روپے لے کر آئے کہ آپ کو جو چیز چاہیے ہمیں بتائیں ادویات‘ سرجری کے آلات‘ کھانا‘ مالی امداد‘ اس وقت ہم نے سوچا ہسپتال کے کچھ حصے کو ہم نیا بناتے ہیں۔نئی ڈیزائن کی گئی عمارت کے لئے 36لاکھ کا تخمینہ تھا۔ہم نے پہلی مرتبہ سکول کے بچوں کو ’’منی بکس‘‘ دیے۔36لاکھ میں سے 24لاکھ روپے سکول کے بچوں نے جمع کئے۔تین لاکھ ریز گاری کی صورت میں تھے‘ پانچ پیسے‘ دس پیسے‘ پچیس اور پچاس پیسے سکے۔چالیس بوریاں تھیں مختلف مالیت کے نوٹوں سے بھری ہوئی۔ہم نے اس وقت دوستوں سے مشورہ کیا کہ ہم ایک ہسپتال بنائیں گے(انشاء اللہ) جو اعلیٰ درجے پر علاج کرے گا اور ہر مریض کا علاج بالکل مفت ہو‘ یہ خواب 1987ء میں دیکھا گیا ہم سمجھتے ہیں کہ خواب وہ ہوتے ہیں جو ہم سوتے میں دیکھتے ہیں ’’اصل خواب تو وہ ہیں جو ہمیں سونے نہیں دیتے‘‘ اور ان خوابوں نے ہمیں سونے نہیں دیا اور آج تک بیداری میں دیکھے گئے ان خوابوں کو پورا کرنے میں لگے ہیں۔ 2004ء میں میرے ساتھی واپس آئے‘ ان سب کو اکٹھا کیا اور کہا ہم نے ایک خواب دیکھا تھا 1987ء میں اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ اس خواب کی تعبیر کریں اور ہم نے کام شروع کر دیا ’’انڈس ہسپتال‘‘ کی جو بنیاد ہے وہ یقین کی حد تک تھی کسی تردد اور شک کے بغیر یقین دل سے پورے دل کے ساتھ‘ ہم کہتے ہیں اللہ کرے گا۔ لوگوں کی اکثریت کہا کرتی تھی‘ ایسا ہسپتال جو بالکل مفت علاج کرے وہ بن نہیں سکتا‘ بن جائے تو چل نہیں سکتا۔ دو چار چھ ماہ زیادہ سے زیادہ ایک سال‘ مگر ہم نے ناقدین کی پرواہ کئے بغیر فیصلہ کیا اور پیسے اکٹھے کرنا شروع کئے‘ ابھی ارادہ 150بستروں کے ہسپتال کا تھا۔