کہا جاتا ہے ’’انسان آزاد پیدا ہوا ہے‘‘۔ لیکن دیکھا جائے تو انسان ہر جگہ ہر رشتے میں زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ انسان اگر اپنی ضرورتوں سے آزاد ہو جائے تو یقینا سب انسان برابری کی سطح پر آ سکتے ہیں۔ نا ہمواری اور غربت نے ہمیں ایک دوسرے کے تابع بنا رکھا ہے۔ اس رنجور دنیا میں انسانوں نے انسانوں کے لیے ہی خوش حالی اور آسودہ زندگی دشوار بنا دی ہے۔ امیر حکم چلاتا ہے۔ غریب حکم بجا لاتا ہے۔ طاقتور پر کبھی کوئی حکمرانی نہیں کر سکتا۔ اب تو مین سٹریم میڈیا پر بڑے دھڑلے سے قتل وغارت کی داستانیں بلند آوازوں میں ہر چینل پر دہرائی جاتی ہیں۔ غداری کے قصے اونچے سْروں میں سنائے جاتے ہیں۔ قوانین تو ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔مجھے لگتا ہے چوروں کے درمیاں بھی قوانین مرتب کیے جاتے ہیں۔ ڈاکو بھی اپنے وضع کردہ قوانین کے مطابق ڈاکے مارتے اور حصے بانٹتے ہیں۔ پہلے سب سے زیادہ محبت خدا سے کی جاتی تھی، اس کے بعد خدا کے بندوں سے پیار کیا جاتا تھا۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ دولت، عیش و عشرت، آسودگی اور طاقت (اقتدار) سے محبت کی جانے لگی۔ اب تو سچائیاں بھی سب کے اپنے اپنے دماغوں کی پیداوار ہیں۔ انسان جلد باز اور جذباتی ہوتا ہے لیکن جذباتی ہونے کے باوجود وقوانین کا پابند ہوتا ہے۔ جن معاشروں میں قوانین کا احترام نہیں کیا جاتا وہاں باہمی دْشمنیاں پیدا ہو کر افراتفری کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال اس وقت پاکستان میں ہے۔ عوام اس وقت شدید کنفیویژن کا شکار ہیں۔ عوام الناس سیدھے سادھے ہیں اور آسانی سے فریب کھا جاتے ہیں۔ ہماری ہر سیاسی پارٹی کے حکمران نہایت سلیقے اور خوب صورتی سے فریب دیتے رہیں گے اور عوام فریب کھاتے رہیں گے۔ مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ برائلر مرغی 600 روپے کلو پر پہنچ چکی ہے۔ ایک بڑے کنبے کی کفالت تو دور کی بات ہے چھوٹے کنبے کی بھی کفالت بہت دشوار ہوگئی ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے میوزیکل چیئر کھیلنے والی پارٹیاں اب اکٹھی ہو کر ایک ٹوکری میں انڈوں پر آن بیٹھی ہیں۔ ان پارٹیوں کا کہنا ہے کہ ان انڈوں سے جمہوریت، آزادی اور امن کے مرغے نکلیں گے۔ در حقیقت یہ سب جھوٹ ہے۔ ملک میں جو دستور ہے جو سماجی قوانین ہیں سب بے انصافی پر محیط ہیں۔ تمام کے تمام املاک غاصبانہ اور حکومتیں ظالم ہیں۔ ذرا غور کیجیے! 1762ء میں ڑاں ڑاکس رْو سو کی کتاب ’’سوشل کنکڑیکٹ‘‘ شائع ہوتی ہے۔ اس کتاب میں رْوسو ایک ایسے قانون ساز کو دریافت کرتا ہے جو ایک صحیح سیاسی نظام بنا سکے۔ رْوسو ایک ایسے ’’شہری مذہب‘‘ پر زور دیتا ہے جو انسانوں کو ایک عقیدے میں باندھے اور ایسا نظامِ تعلیم دیتا ہے جو اچھے شہری بنانے کے علاوہ ان کو محب وطن بھی بنا سکے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ کھیلوں کو بھی بڑی اہمیت دیتا ہے۔ یوں رْوسو پہلا جدید سیاسی فلسفی ہے جو نچلی سطح پر کام کرنے والی مساوات کا قائل ہے۔ وہ ایسے سیاسی نظام کا داعی ہے جو انسان کو برابری دے سکے۔ دوسری طرف بلاول زرداری کی سوشل میڈیا پر ایک سکول کے دورے کی تصویر وائرل ہوئی ہے جس میں غریب بچوں کے پاؤں میں جوتے تک نہیں لیکن بلاول صاحب کے پاؤں میں چار لاکھ روپے کے جوتے ہیں۔ جی حضور! واقعی ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے۔‘‘ جمہوریت کی بنیادی ضرورت ہے کہ معاشرے کے افراد برابری کے حقوق رکھتے ہوں۔ سندھ میں تو بہت دہائیوں سے پی پی کی حکومت ہے وہاں برابری کیوں نہ آ سکی۔ اس کے جواب میں وفاق سے نہ ملنے والے فنڈز کھانے کی باتیں ہوں گی۔اپنی نااہلی اور بدعنوانی پر کبھی بات نہ ہوگی۔ ریاستیں ہمیشہ رہتی ہیں۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں۔ ریاست میں قانون ساز ایسا ہونا چاہیئے جو تقاضائے وقت کے مطابق انسانی فطرت کی تبدیلیوں کو محسوس کر سکے۔ قانون ساز دستور بناتا ہے اور حکمران بادشاہ بن کر اس دستور کی پیروی کرتا ہے۔ لہذا قانون ساز کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوام کے منہ میں اپنی زبانیں دینے کے بجائے اجتماعی مفاد کے حق میں قانون سازی کریں۔ انسانیت اور قوموں کی تباہی کے لیے ذاتی مفادات سے بڑھ کر زیادہ خطرناک اور کوئی چیز نہیں۔ عوامی خدمت کے قائم کردہ ادارے جونہی وہاں کے شہریوں کے حقوق اور مقاصد کو پوار کرنے کے بجائے اپنی ذاتی دولت کی ترقی کی راہ کو اپناتے ہیں تو وہ تباہی کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ عوام کی اکثریت اور مستحکم مرضی سے کیے گئے فیصلے ہی عمومی کہلاتے ہیں اور اسی کو ووٹ کہتے ہیں۔ ہر شخص اپنا ووٹ دے کر اپنی قیمتی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ مگر جس ملک میں 70کی دہائی میں قومیائے گئے بینک سیاسی دباؤ کے تحت بڑے بڑے قرضے بغیر ضمانتوں کے نہ صرف جاری بلکہ معاف بھی کرنے لگے تو ظاہر ہے دیوالیہ ہوں گے۔ جس طرح ہر نیا بحران پرانے بحران پر اثر انداز ہوتا ہے اور پرانے اور نئے بحران میں تمیز ختم ہو جاتی ہے تو شاید تباہی کی سرحدوں پر پڑاؤ ڈالنا پڑتا ہے۔ ہمارے سیاست دان برے تجربات بھلا کر قومی امیدوں کو نیا پیراہن کیوں نہیں پہناتے؟ چالیس سال کی عمر کے بعد بندہ مڑ کر خود سے سوال کرتا ہے کہ اب مستقبل میں اس کے پاس کیا بچا ہے؟ کہ اب لطف، لذت اور لالچ کے پیمانے بھی دھندلے پڑ چکے ہیں۔ لیکن ہمارے حکمران خود احتسابی کے مْونس وغم خوار نہیں بننا چاہتے۔ کیا وہ اپنے وجود اور زندہ رہنے کے جواز کو موجودہ حالت پر ہی ملحوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ آخر میں مولا علیؓ کے کلام ’’نہج البلاغہ‘‘ سے ایک انتخاب قارئین کی نذر کرنا چاہوں گی! ’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جس میں وہی بارگاہوں میں مقرب ہو گا جو لوگوں کے عیب بیان کرنے والا ہو اور انصاف پسند کو کمزورو ناتواں سمجھا جائے گا۔ صدقہ کو لوگ خسارہ اور صلہ رحمی کو احسان سمجھیں گے اور عبادت لوگوں پر تفویق جتلانے کے لیے ہوگی۔ حکومت لوگوں کے لیے آزمائش کا میدان ہے۔‘‘