کوئی کسوٹی، کوئی پیمانہ، کوئی معیار مقرر کرلیجیے اور اس پر ان دعوئوں کو پرکھ لیجئے جو کسی بھی بات کے بارے میں کئے جاتے ہیں۔ میں گزشتہ چھ سات ماہ سے شور مچا رہا ہوں کہ ملک کی معیشت زوال پذیر ہے۔ بہت سے اشاریے گناتا جارہا ہوں اور دہائی دیتا ہوں کہ خدا کے واسطے کچھ کیجئے، بات بگڑتی نظر آتی ہے۔ آج سٹیٹ بینک نے جو رپورٹ پہلی سہ ماہی کے حوالے سے جاری کی ہے، اس نے بھی اس پریشانی کو شدید کردیا ہے۔ جواب میں دونوں طرف سے سیاست کی جائے گی۔ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے اور یقین کیجئے مسئلہ سنگین ہے۔ ان دنوں ملک میں جو کچھ ہورہا ہے، اسے کسی بھی پیمانے، معیار یا کسوٹی سے جانچئے، آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ایک منٹ کے لیے میں معیشت کو پس پشت ڈالتا ہوں، دوسروں کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نقشہ کیا ہے۔ دو تین حوالے لے لیجئے۔ مثلاً 1۔ ان دنوں معیشت کیسی رہی۔ 2۔ سیاست کے کیا اطوار ہیں۔ 3۔ گورننس کی کیا صورت حال ہے۔ 4۔ تہذیبی اور سماجی سطح پر کیا حاصل ہوا ہے۔ اور بھی معیارات ہیں، مگر فی الحال خود کو ان تک محدود کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ کل ایک جگہ ایک فکری نشست تھی۔ ترکی کی صورت حال پر بات ہورہی تھی۔ طیب اردوان کے رویوں کا تذکرہ ہورہا تھا۔ بہت سی منفی باتیں بھی چل رہی تھیں مگر ایک بات پر سب کا اتفاق تھا کہ اردوان نے معیشت کی کایا پلٹ دی اور گورننس کو مثالی بنا دیا۔ ہمارے ہاں بھی توقع کی جاتی تھی کہ آنے والے گورننس کی صورت حال بہتر بنائیں گے۔ ان کا دعویٰ بھی تھا کہ ان کے آتے ہی سب ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ ہر کام میرٹ پر ہوگا۔ تقرریاں سیاسی بنیادوں پر نہیں ہوں گی۔ خاص طور پر پولیس کے بڑے چرچے تھے کہ ہم نے خیبرپختونخوا کی پولیس کو بدل کر رکھ دیا۔ صرف ایک کام کیا کہ اسے ایک طرح کی خودمختاری دے دی۔ کوئی تقرری سیاسی دبائو سے نہیں ہوتی تھی۔ آئی جی کمانڈر تھا اور وہ ہی ہر کام کا ذمہ دار تھا۔ کوئی سیاست دان نہ اس کے کام میں مداخلت کرتا تھا نہ کوئی سفارش۔ اس کی حقیقت کیا تھی، اس وقت ہم نے اس کام کا جائزہ نہیں لیا مگر دعویٰ ہی تھا۔ وہاں کے ریٹائرڈ آئی جی ناصردرانی کو ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا کہ ان سے پوچھ لو، سارا کام انہی نے کیا ہے۔ انہیں پنجاب میں پولیس اصلاحات لانے کے لیے چیئرمین مقرر کیا گیا۔ سارے دعوئوں کی قلعی مگر ایک ماہ دو دن کے اندر ہی کھل گئی۔ جب پاکپتن کا واقعہ ہوا۔ جب وہاں کے پولیس افسر کو آدھی رات وزیراعلیٰ ہائوس طلب کیا گیا، جہاں ایک ایسا شخص جواب طلبی کے لیے موجود تھا جس کا تعلق وزیراعظم کے سسرال سے ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لے کر خاصا ہنگامہ کھڑا کردیا۔ پھر آئی جی کو بھی جانا پڑا جس کا تقرر اسی حکومت نے کیا تھا۔ یک بیک ایسے معاملات کی قطار بند گئی۔ اسلام آباد کا آئی جی رخصت ہوا، پیچھے اعظم سواتی تھے۔ چکوال، میانوالی، گوجرانوالہ ہر جگہ سے خبریں آنے لگیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے تو صاف کہا کہ افسروں کو حکومت کی بات ماننا پڑے گی ورنہ وہ گھر جائیں۔ یہ بھی کہا کہ ایک آئی جی کی یہ جرأت کہ وہ وزیر کا فون نہ اٹھائے یا اس کا جواب نہ دے۔ اس بارے میں ان کا رویہ اور کئی بار سامنے آیا۔ گویا وہ وزیر کو خدا سمجھتے ہیں۔ شہبازشریف منسٹروں کی رہائش گاہ میں رہتے ہیں اور ان کا پروٹوکول کسی وفاقی وزیر سے زیادہ ہے۔ بھائی، کیا غلط فہمی ہے۔ یہ وزیرایسی کون سے توپ چیز ہوتا ہے۔ آپ بار بار اس کا حوالہ دیتے ہیں۔ بہرحال قصہ مختصر یہ کہ افسروں کے تبادلے ہر روز ہورہے ہیں اور ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی دبائو نظر آتا ہے۔ جب آپ کا مائنڈ سیٹ ہی یہ ہو کہ فلاں کی کیا مجال کہ وہ وزیر کا فون نہ سنے تو اس سے آپ میرٹ کی توقع نہیں کرسکتے۔ حکمران جماعت کے وزراء اور عہدیدار یہ کہنے لگے، پہلے والے افسروں کے زور ہی پر حکومت چلاتے تھے۔ اب ہمارا وقت آیا ہے تو افسر ہماری مرضی اور ہماری مرضی سے چلے گا۔ میرٹ کا تو گویا جنازہ نکل گیا اور سیاسی مداخلت نہ کرنے کے سارے دعوے دم توڑ گئے۔ اوپر سے نیب جیسے اداروں کا منہ زور دبائو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مارے ڈر کے افسروں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ گورننس پر سوالیہ نشان پڑ گیا۔ کوئی قدم سیدھا نہیں پڑر رہا۔ راستہ کیسے طے ہو اور منزل تک کیسے پہنچا جائے۔ سارا کاروبار ٹھپ پڑا ہوا ہے۔ دوسرا معیار سیاست کا لے لیجئے۔ ہم ایک جمہوری ملک ہیں۔ ادارے مضبوط ہوں یا نہ ہوں لیکن جمہوریت کے لیے عوام کی خواہشیں اور ادارے اتنے مضبوط ہیں کہ کسی ڈکٹیٹر کے زمانے میں بھی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا احترام کرنا پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے ہم ملائیشیا، ترکی اور دوسرے نسبتاً ترقی یافتہ مسلم ممالک سے بہت آگے ہیں۔ جمہوریت کو پٹڑی سے اتارا جاتا ہے تو وہ بار بار واپس اپنے ٹریک پر موجود ہوتی ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ مارشل لا کی آواز سنائی دیتی ہے یا پھر کوئی غیرجمہوری بندوبست ہورہا ہے یا صدارتی نظام (مضبوط صدروالا) لانے کی کوشش ہورہی ہے تو عوام تڑپ اٹھتے ہیں۔ کم از کم ہماری تاریخ ہی بتاتی ہے کہ ہم نے آمریت کو کسی روپ میں برداشت نہیں کیا حتیٰ کہ بھٹو کی سول آمریت اپنے جمہوری چہرے کے باوجود بھی پنپ نہ سکی۔ اس وقت کیا خیال ہے ہمارے ہاں جمہوریت کی گاڑی آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر اپوزیشن کی تمام جماعتیں کرپٹ، ملک دشمن، غدار اور بے کار ہیں اور بقول شاہ محمود قریشی فیصلہ سازوں کے لیے قابل قبول نہیں تو کیا یہاں یک جماعتی نظام کی بنیاد رکھی جائے گی۔ یوں لگتا ہے حکمرانوں میں یہ خواہش شدید پالی جاتی ہے کہ انہیں چیلنج کرنے والا کوئی نہ ہو۔ ان کا لہجہ، ان کا انداز، ان کا طریق کار سب اس کی عمازی کرتا ہے۔ بات ہمارے کلچر اور مزاج سے لگا نہیں کھاتی اور یہاں چلنے والی نہیں ہے۔ اگر حکمران جماعت کا زور اس پر ہو کہ صرف ہم ہی سچے ہیں، باقی سب بددیانت ہیں تو اس میں کتنی بھی صداقت کیوں نہ ہو، اس کا اثر یہ پڑتا ہے کہ ملک میں جمہوریت کی بنیادیں ہلنے لگتی ہیں اور یاد رکھئے، آمریت اس ملک کو موافق نہیں آتی اور یہ پودا اس زمین پر پھل پھول نہیں سکتا۔ اس کے نتیجے کے طور پر ہماری تہذیب و معاشرت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں جو الفاظ اب بولے جا رہے ہیں، کیا ماضی میں کبھی یہ بولے گئے یا انہیں پسند کیا گیا۔ ہمارا اخلاق تباہ ہورہا ہے۔ یہ بات میں اس لیے کر رہا ہوں کہ بعض لوگوں کی نظر میں معاشی ترقی اہم ہوتی ہے، باقی کوئی پیمانہ بے معنی ہے۔ کم از کم ہمیں پیسے کی وہ ر یل پیل بھی گوارا نہیں ہے جو ہماری تہذیب اور سماج کا ستیاناس کردے۔ ہم نے جو رویہ اپنایا ہوا ہے وہ گالم گلوچ کا رویہ ہے۔ ہم نے جو سیاست کی ہے وہ آمرانہ کلچر کی غماز ہے۔ ہم نے جو نظام حکومت چلایا ہے وہ بدانتظامی کا آئینہ دار ہے تو کیا ملا، ہمیں اتنی جدوجہد کے بعد۔ اس پس منظر میں اگر یہ خبریں بھی آنے لگیں کہ معیشت کا برا حال ہے تو ہاتھ پلے کیا رہ جائے گا۔ سٹیٹ بینک نے پہلے تین ماہ کا جائزہ لے کر یہ بتایا ہے کہ ہماری ترقی کی رفتار جو 6.2 فیصد ہونا تھی، کم از کم 2 فیصد کم رہے گی۔ سچ پوچھئے، لمحہ موجود میں یہ بڑا فراخدلانہ اندازہ ہوگا کیونکہ اس وقت کے اندازے یہ بتاتے ہیں کہ ہم اس سے بھی پیچھے جا رہے ہیں۔ روز نئے خواب دکھائے جا رہے ہیں مگر کسی خواب شناس سے ان کا تجزیہ کرالیجئے، وہ یہی بتائیں گے کہ یہ خواب کہیں مستقبل بعید میں پورے ہو سکیں گے۔ رزاق دائود جیسا شخص بھی بعض باتیں ایسی کر رہا ہے جو یہ بتاتی ہیں کہ فلاں فلاں اصلاحات کا فائدہ پہنچتے پہنچتے بہت وقت درکار ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کم ہونے کے باوجود ہمیں کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہورہا۔ برآمدات کا جو ہدف گزشتہ حکومت نے مقرر کیا تھا، ہم نے روپے کی قیمت بے تحاشا کم کرنے کے باوجود بھی یہ اندازہ لگایا ہے کہ شاید ہی اسے حاصل کرپائیں، ویسے وہ بھی مشکل ہے۔ روپے کی قدر گر گئی، مہنگائی بڑھ گئی، صنعتوں کی نمو سات سال میں پہلی بار کمی کا شکار ہے۔ کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ کوئی توقع نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں ہمارے مقدر میں بہتری آئے گی۔ پھر کیا ملا ہم کو اس ساری جدوجہد سے۔ سیاست خراب، معیشت بدحال، انتظامی ڈھانچہ تلپٹ، تہذیبی اور معاشرتی طور پر گھراوٹ، گال گلوچ عام۔ خدا کے واسطے ہم کدھر جا رہے ہیں۔ کوئی پیمانہ، کوئی معیار، کوئی کسوٹی، کسی پر رکھ کر پرکھ لیجئے۔ چلیے یہی کہہ لیجیے کہ ہم نے معاشرے سے کرپشن ختم کردی ہے۔ جب مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تھی تو انہوں نے بھی یہی کہا تھا کہ اوپری سطح سے کرپشن کا خاتمہ ہو گیا ہے، اب اس کے اثرات نیچے تک لے جانا ہوں گے۔ پھر کیا ہوا؟ معاشرے کو ایک وژن کی ضرورت ہے جو اس وقت ناپید ہے۔ نتیجہ تباہی ہی تباہی ہے۔ میں نے میڈیا پر بات نہیں کی۔ اس کے بارے میں میرے کچھ زیادہ ہی تحفظات ہیں۔ کسی پیمانے پر پورے نہیں اتر رہے۔ یہ نہیں کہ ہر چیز بری ہے مگر اجتماعی زائچہ کچھ اچھا نہیں بن رہا۔ وطن کی فکر کر ناداں قیامت آنے والی ہے اور یہ قیامت ٹل بھی سکتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہمیں اس کا احساس ہو جائے اور ہم اس کا ارادہ کرلیں۔