کہا جاتا ہے کہ گزرا ہوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا، ہاں یہ سچ ہے مگر یہ بھی تو سچ ہی ہے ہر گزرتا ہوا لمحہ واپس ضرور آتا ہے، تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے، تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی، زمین گول ہے،سورج گردش میں رہتا ہے، سورج خون بھی ہے اور سورج ٹھنڈک و راحت بھی، جب سورج ڈھلتا ہے تو چاند نمودار ہوتا ہے، قدرت کے سوا کس کی مجال کہ وہ وقت کو گردش میں رکھے، قانون قدرت کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔ سب بے بس ہو جاتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنی موت کا ایک لمحہ بھی نہیں بڑھا سکتا،جیسے کوئی اپنا کفن خود نہیں اوڑھ سکتا۔ سن دوہزار پانچ میں اسلام آباد، خیبر پختونخواہ، مظفر آباد،باغ، وادی نیلم اور راولا کوٹ میں ایک قیامت ٹوٹی تھی،جس کی بازشت موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس میں سامنے آئی ہے، جسٹس ثاقب نثار فرما رہے ہیں کہ وہ اربوں ڈالر کہاں گئے جو پوری دنیا سے زلزلہ متاثرین کے لئے آئے تھے؟ وہ سب امداد کہاں گئی جو پاکستان کے گلی کوچوں سے متاثرہ علاقوں میں بھجوائی گئی تھی، تیرہ سال بعد اس سوال کا جواب چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کو کہیں سے نہیں ملے گا ، کاش وہ تحرک میں آتے ہی سیاسی معاملات میں پڑنے کی بجائے ایسے قومی جرائم کو اپنا ٹارگٹ کرتے اور نئی نسل کو بتاتے کہ ہم کتنے گندے لوگ ہیں، وہ گندے لوگ جواپنے بچوں کے کفن تک بیچ دیتے ہیں، میں اپنے اور نائنٹی ٹو نیوز کے قارئین کو یاد دلاتا چلوں کہ سن دو ہزار پانچ میں آنے والا یہ زلزلہ ، زلزلہ نہیں قیامت کا الارم تھا، جس میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بنے، شہر کے شہر، گاؤں کے گاؤں، بستی بستی، قریہ قریہ قبرستانوں میں ڈھل گئے تھے،انہی دنوں مجھے بھی زلزلہ زدہ علاقوں میں جانے کا موقع ملا تھا، ہم لوگوں کاپہلا پڑاؤ راولاکوٹ ہی تھا جہاں سب سے زیادہ تباہی ہوئی تھی، جب ہم اس شہر میں داخل ہوئے تو ہمیں دیکھنے والا کوئی نہ تھا، ہم جوں جوں آگے بڑھ رہے تھے ویرانیاں اپنے چہرے سے نقاب اتارتی جا رہی تھیں، لگتا تھا جیسے یہاں کبھی زندگی تھی ہی نہیں، ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم کسی قبرستان کو عبور کر رہے ہیں ، ہم اس ہموار قبرستان میں آگے بڑھتے رہے، ایک جگہ زندگی کے آثار نظر آئے،وہاں کچھ فوجی جوان کھڑے تھے، انہوں نے ہمیں بتایا کہ آپ کو شاید آگے کوئی ذی روح نہ مل سکے، بہتر ہے کہ آپ امدادی سامان کے ٹرک یہیں خالی کر دیں، وہ انہیں ایسے علاقوں تک پہنچا دیں گے جہاں ابھی زندگی کے آثار باقی ہیں، ہم نے آدھا سامان وہیں اتار دیا اور آدھا سامان لے کر اس امید پر آگے بڑھ گئے کہ کوئی نہ کوئی توضرور زندہ ملے گا ، جسے ہم احساس دلا سکیں گے کہ پاکستان میں کچھ لوگ تو ہیں جو اس تباہی کی خبر رکھتے ہیں ، میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ اس زلزلے میں اسلام آباد میں ایک پلازے کے منہدم ہوجانے اور اس کے نتیجے میں جانی نقصانات کے سوا حکومت اور میڈیا کو بھی کوئی خبر نہ تھی کہ کون کون سے شہر اور قصبات قبرستان بن چکے ہیں، تفصیلی اطلاعات تین دن کے بعد سامنے آئی تھیں، سب مواصلاتی نظام ختم ہو چکے تھے اور کسی کو اس کی کوئی خبر نہ تھی، دو ہزار پندرہ تک یہ تھا ہمارا پاکستان۔ ٭٭٭٭٭ راولا کوٹ میں کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد بالآخر ہمیں زندگی کے کچھ آثار مل ہی گئے، ہم لوگوں نے کوشش کرکے بیس تیس زندہ لوگ ڈھونڈ ہی لئے ‘ چند چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں نہ جانے کس کس کی گود میں تھے ، ہمارے پاس دیگر اشیاء کے ساتھ کھلونے بھی تھے، جو وہاں تقسیم کرنے لگے، میں نے دیکھا کہ وہاں ایک آدمی ایک تین سال کے بچے کو گود میں اٹھائے ایک کونے میں کھڑا ہے، وہ شخص اور وہ بچہ امداد لینے والوں کی قطار میں نہیں تھے، میں اس آدمی کے پاس پہنچا،، تم بچے کو گود میں لئے اتنی دور کھڑے ہو، کیوں؟ تمہیں بھی امدادی سامان اور بچے کے لئے کھلونے لینے چاہئیں،،،، میرے اس سوال کا جواب اس شخص نے یوں دیا،،، میں تو اس قطار میں جانا چاہتا ہوں مگر یہ بچہ نہیں مان رہا، یہ کہتا ہے کہ وہ کھلونے صرف اپنے باپ سے لے گا، کسی اور سے نہیں اور میں نہیں جانتا کہ اس بچے کے والدین کہاں ہیں کیونکہ یہ بچہ اسے اس شہر قبرستان میں لاوارث ملا ہے، میں نہیں جانتا کہ اس کے والدین اور اس کے خاندان کا کوئی فرد زندہ بھی ہے یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔اس پڑاؤ کے بعد ہم آگے بڑھتے گئے، کہیں زندگی کے آثار نہ ملے، اب ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ قیامت یہاں سے گزر چکی ہے اور سب کچھ اپنے ساتھ لے گئی ہے، دن ختم ہو چکا تھا، رات نے بڑھنا شروع کر دیا تھا، ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا، جب اگلے دن کا آفتاب اپنے پورے غضب کے ساتھ طلوع ہوا تو میں نے اس جگہ چہل قدمی شروع کر دی، لگتا تھا جیسے اس زمین کو ابھی تک قدرت نے زندگی سے محروم ہی رکھا ہے، یہ جگہ ہماری زمین کا ابھی تک حصہ ہی نہیں بنی، ہم کسی دوسرے سیارے پر آگئے ہیں، میری نظریں چٹیل زمین پر تھیں، مجھے یہاں زندگی کی تلاش تھی، بالآخر میری جستجو رنگ لائی اور مجھے، ایک سے زیادہ مقامات پر کئی چیزیں نظر آئیں، سب سے پہلے میں نے ایک چھوٹی سی گڑیا دیکھی جو صحیح و سلامت تھی، میں نے ایک جگہ پر کسی بچے کے ٹوٹے ہوئے سینڈل دیکھے، میں نے ایک مقام پر زمین پر کسی بچے کا دھنسا ہوا بستہ دیکھا جس میں کتابیں موجود نہ تھیں، یہ سن دو ہزار پانچ تھا اس وقت تک ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ میں ان آثار کو کسی طرح محفوظ کر لیتا،ہمارا سفر پھر شروع ہوا، ہم ایبٹ آباد کے ایک اسپتال پہنچے جہاں مختلف علاقوں سے زندہ بچ جانے والے لوگوں کو معمول پر لانے کیلئے رکھا گیا تھا،یہاں بچے بھی تھے، عورتیں بھی تھیں اور بوڑھے بھی، ان سب لوگوں کو علم نہ تھا کہ ان کے سوا ان کا کوئی اور پیارا زندہ بھی ہے یا نہیں،،،،، ہم اسپتال کے اس وارڈ تک گئے جہاں صرف خواتین داخل تھیں، تعداد پندرہ سے بیس تک تھی، انہیں امدادی اشیاء کی تقسیم کے دوران میں نے دیکھا کہ آخری بیڈ پر لیٹی ہوئی ایک نوجوان لڑکی اپنے بستر سے اتر کر نیچے جھکی اور پھر واپس اپنے بیڈ پر نہیں آئی، جب ہم اس آخری بیڈ تک پہنچے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں نے اس خالی بیڈ پر لیٹی ہوئی ایک لڑکی کو بیڈ کے نیچے چھپتے ہوئے دیکھا تھا، جب اسپتال کے ایک ورکر نے بیڈ کے نیچے جھانکا تو واقعی وہاں وہ نوجوان لڑکی سہمی اور سمٹی ہوئی موجود تھی ، وہ کہہ رہی تھی، میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے لواحقین کو صدقے اور خیرات بانٹتے ہوئے دیکھا ہے اور آج اس میں ہمت نہیں ہے کہ وہ اجنبی لوگوں سے خیرات وصول کرے، اس لڑکی کی آواز میں اتنا درد تھا کہ ہم سب لوگ ایک ہی لمحے میں اس وارڈ سے باہر نکل گئے،اور اب ایک نظم جو میں نے سن دو ہزار پانچ کے اس زلزلے میں میں لقمہ اجل بن جانے والے بچوں کے لئے لکھی تھی۔ مرگ بے رحم کیا کیا تونے سارا گلشن مسل دیا تو نے سینکڑوں کیا، ہزار ہا بچے آن کی آن میں بنے لاشے ان کھلے پھول موت نے روندے اور جو بچ گئے یتیم ہوئے کوئی وارث ہے نہ کوئی والی ہے کوئی گلشن ہے نہ کوئی مالی ہے سوچتا ہوں تو دل دھڑکتا ہے دل میں طوفان سا بھڑکتا ہے موت ہی موت جس طرف جائیںخوف ہی خوف جس طرف دیکھیںدوستو! کیا کہوں کہ تاب نہیں‘مر گئے کس قدر حساب نہیں ٭٭٭٭٭ جناب چیف جسٹس آف پاکستان، دو ہزار پندرہ کے زلزلے میں تو سب کے سب زندہ لوگ زمین میں دفن ہو گئے تھے ، ان کے لئے اربوں کھربوں کی امدادحکومت اور حکومتی لوگ ہڑپ نہ کرتے تو کیا کرتے؟