وزارت قانون نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی اپنی رپورٹ میں موقف اختیار کیا ہے کہ انڈر ٹرائل قیدیوں کو ضمانت پر رہا نہیں کیا جا سکتا۔ وزارت قانون کے مطابق صدر پاکستان جنہیں سزائے موت تک معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے ، وہ بھی کسی انڈر ٹرائل قیدی کو ضمانت پر رہا نہیں کر سکتے۔ بطور ایک طالب علم میرے پیش نظر سوال یہ ہے کہ کیوں رہا نہیں کیا جا سکتا؟ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں گالم گلوچ کی بجائے کبھی ڈھنگ کی قانون سازی ہوئی ہوتی اور صدیوں پرانے قوانین کی بیساکھیوں سے ملک کو ہانکنے کی بجائے قانون ساز ایوانوں میں، جہاں موجودہ انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ صادق اور ایماندار لوگ بیک وقت ایک چھت تلے پائے جاتے ہیں ،کچھ فکری مشقت کی گئی ہوتی تو شاید آج یہ سوال ہی نہ اٹھتا۔ کرونا کی وجہ سے اگر یہ قیدی زیر بحث آ ہی گئے ہیں تو مناسب ہو گا اس سارے قصے کو سمجھا جائے اور اس پر بات کی جائے۔ انڈر ٹرائل قیدی کون ہوتا ہے؟ یہ وہ قیدی ہوتا ہے جسے ابھی سزا نہیں سنائی گئی ہوتی۔ جھوٹا یا سچا ، مقدمہ ابھی چل رہا ہوتا ہے۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ سالوں جیل میں قید رہنے کے بعد وہ بری ہو جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دس بیس سال بعد جب وہ سپریم کورٹ سے رہا ہو تو پتا چلے اس کم بخت کو تو پھانسی دی جا چکی ہے۔سوال یہ ہے کہ انڈر ٹرائل قیدی آخر میں مقدمے سے بری ہو جائے تو اس کے قید میں گزرے ماہ و سال کا حساب کون دے گا؟ کیا پارلیمان میں بیٹھے ان معزز قانون سازوں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے؟ ایک آدمی کو آپ سچے یا جھوٹے مقدمے میں پکڑ کر جیل میں ڈال دیتے ہیں۔کیا کسی کو کچھ خبر ہے اس سے ہوتا کیا ہے؟ ایک فرد نہیں ایک پورا خاندان عذاب سے گزرتا ہے۔ اس کی معیشت تباہ ہوتی ہے۔ سفید پوش ہے تو اس کی عزت کا جنازہ نکل جاتا ہے ۔ اس کے اہل خانہ مالی اور نفسیاتی بحران سے دوچارر ہو جاتے ہیں۔ ایسا قیدی اگر سزا پا جائے تو یہ ایک الگ معاملہ ہے لیکن اگر وہ آخر میں بے گناہ قرار دے دیا جائے تو آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پر مبینہ طور پر پورا اترنے والے ان عالی مرتبت قانون سازوں کے پاس کوئی جواب تو ہونا چاہیے کہ اس بے گناہ قیدی کے مالی اور نفسیاتی المیے کا ازالہ کیسے ہو گا؟کرونا کی وجہ سے اگر قیدی زیر بحث ہی آ گئے ہیں تو کیا ہی اچھا ہوتا وزارت قانون صدیوں پرانے قانون کی تکنیکی بھول بھلیوں کا طوق گردن میں ڈالنے کی بجائے جورسپروڈنس سے کام لیتی اور ، کم از کم ، یہ ہی تجویز کر دیتی کہ انتہائی سنگین جرائم کے ملزمان کے علاوہ کسی اندر ٹرائل کو قید میں رکھنا ہی نہیں چاہیے۔ ہر انڈر ٹرائل قیدی کو اٹھا کر جیل میں دالنے کے نقصانات کیا ہیں؟ ذرا یہ بھی دیکھ لیجیے۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق اس وقت جیلوں میں 55 ہزار 634 قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے لیکن وہاں 77 ہزار قیدی موجود ہیں۔ اب یا تو ملک میں’’ جیلوں کا جال بچھا دیجیے‘‘ یا پھر ایسے قیدیوں کے بارے قانون تبدیل کیجیے جنہیں ابھی سزا نہیں ہوئی۔حیران کن اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ جیلوں میں قید لوگوں میں سے 60 فیصد وہ ہیں جن کے مقدمات ابھی چل رہے ہیں اور انہیں سزا نہیں ہوئی۔ ایک طرف تو ان ساٹھ فیصد قیدیوں کو بلاوجہ ریاست مہمان بنا کر ٹیکس گزاروں کا پیسہ برباد کر رہی ہے دوسری طرف ان ساٹھ فیصد قیدیوں کے اہل خانہ مالی مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔ کبھی عدالتوں میں جائیے۔ لمبی لمبی کاز لسٹ۔ ایک جج کے لیے سینکڑں کیس روزانہ۔ بلاوجہ کے ان 60 فیسد قیدیوں کی ضمانت کی درخواستیں سننے کا اضافی بوجھ اگر دو سطری قانون کے ذریعے ختم ہو جائے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ جھوٹے مقدمات کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارے ہاں سچ جھوٹ کا فیصلہ سالوں بعد ہوتا ہے ملزم کو اسی وقت پکڑ لیا جاتا ہے اور پھر وہ جیل میں پڑا ہوتا ہے۔ لوگ جھوٹے مقدمات میں مخالفین کو یہ سوچ کر نامزد کر دیتے ہیں کہ بھلے بعد میں رہا ہو جائے ایک دفعہ جیل تو دیکھ آئے۔ دو سطر کی ایک قانون سازی آپ کے نظام تعزیر کی کمر سیدھی کر سکتی ہے لیکن یہ بھاری پتھر کون اٹھائے؟ یہاں تو صدیوں پرانے قوانین کے بے روح الفاظ سے کوئی بلند ہونے کو تیار نہیں۔ ہاں کبھی کوئی قانون ساز معزز رکن پارلیمان اس قانون کی زد میں آ جائے تو پھر اجتماعی آہ و بکا دیکھنے سننے والی ہوتی ہے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو مرتے رہیں۔بیماری سے مریں یا کرونا سے ، وزارت قانون کو اس کی پرواہ نہیں۔ وہ ضابطے کی اسیر ہے۔ضابطے سے آگے دیکھنے کی صلاحیت اس سماج میں سلب ہوتی جا رہی ہے۔ لکیر ہے ، بس پیٹی جا رہی ہے۔ کرونا وائرس نے غور و فکر کا ایک دروازہ کھولا ہے۔پارلیمان میں بیٹھے قانون ساز چاہیں تو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قانون میں ضروری ترمیم کر سکتے ہیں۔جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں۔ انہیں غیر انسانی ماحول میں رکھا جا رہا ہے۔ نواز شریف وغیرہ کے لیے تو’’ دو نہیں ایک پاکستان‘‘ والے بھی موبائل میڈیکل یونٹ تععینات کر دیتے ہیں لیکن عام قیدی ٹی بی ، ہیاٹائٹس اور نجانے کس موذی امراض میں مبتلا ہو کر مر رہے ہیں۔خواتین قیدیوں کا کیا حال ہے اور ان کے ساتھ جیلوں میں کیا کچھ ہو رہا ہے ، کاش کبھی کوئی اس پر لکھے۔قلم سے اقتدار کے ازار بند ڈالنے والے جیل کی حالت زار پر لکھتے بھی ہیں تو صرف اس وقت جب کوئی بڑا آدمی جیل جاتا ہے اور اسے لگتا ہے اس کا واش روم اچھا نہیں ہے اور دیواروں پر سیلن ہے۔عام قیدی کے وجود میں اتری سیلن یہاں سرے سے موضوع ہی نہیں۔