افتخار عارف کی تازہ کتاب ’’باغ گل سرخ ‘‘جب مجھے ملی تو شہر لاہور گل نشتر کے سرخ پھولوں میں گندھا ہوا تھا۔ حسن اور تمکنت میں ڈوبے ہوئے گل نشتر جا بجا سڑکوں کے کنارے لگے ہوئے درختوں پر جھولتے تھے۔ یوں بھی موسم بہار ہے تو جاوداں گلاب کے پھول باغوں کی روش روش پر کھلے ہیں۔یہ جو 132صفحات کی مختصر شاعری کی کتاب باغ گل سرخ ہے۔اس میں ورق ورق شاعر کی زندگی کا حاصل تحریر ہے۔ ایک لو دیتا ہوا خیال ہے جو ہر مصرع میں مثل چراغ جلتا ہے۔ یا پھر سرخ گلابوں کا ایک باغ ہے جو پڑھنے والے کو مشکبار کرتا ہے۔مجھ تک پہنچنے والی پہلی اطلاع یہی تھی کہ افتخار عارف اپنی نئی کتاب کا نام کتاب آخر رکھ رہے ہیں۔ کتاب کا پارسل آیا تو اسی نام کا خیال تھا مگر کتاب کھولی تو خوش رنگ ٹائٹل اور نام باغ گل سرخ دل کو بہت بھایا۔ میں نے نام بدلنے کی اور باغ گل سرخ نام رکھنے کی وجہ ایک ہی سوال میں پوچھ ڈالی۔ افتخار عارف کہنے لگے کہ کتاب آخر نام اس لئے نہیں رکھا کہ جوش صاحب کی ایک کتاب کا نام ہے حرف آخر۔ بس اسی مماثلت کی وجہ سے یہ خیال چھوڑ دیا۔ ہاں باغ گل سرخ کی ترکیب میری پسندیدہ ہے۔ مجھے بہت ہانٹ کرتی ہے۔ یہ غزل میں نے ایران کے قیام کے دوران لکھی تھی اور اس کی انسپریشن بھی باکمال ایرانی شاعر سہراب سہپری کی ایک غزل سے مجھے ملی جن کا نام میں نے غزل کے ایک شعر میں بھی شامل کیا ہے۔عمر کے اس حصے میں میری یہ کتاب آ رہی تھی تو باغ گل سرخ سے بہتر اور کوئی نام مجھے نہیں لگا۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ گل سرخ اہل تصوف میں ایک ترکیب استعمال کی جاتی ہے جس کا مطلب ہے مقصد حیات ہدف زندگی یعنی وہ مقام جو آپ زندگی میں حاصل کرنا چاہتے ہیں، جہاں پہنچنا چاہتے ہیں، یعنی وہ گل سرخ جو دراصل آپ پانا چاہتے ہیں، تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ باغ گل سرخ تک پہنچ پائے۔ میرے سوال کے جواب میں افتخار صاحب کہنے لگے کہ دیکھیں زندگی میں منزل تو کوئی چیز نہیں۔زندگی ایک مسلسل سفر کا نام ہے، زندگی کا مقصد میرے لئے کبھی بھی شہرت دولت منصب اور مرتبہ نہیں رہا۔ یہ سب تو وہ غبار ہے جو سفر کیساتھ اڑتا رہا۔ زندگی بس ایک سفر کا نام ہے اس میں اللہ نے ہمیں بہت نوازا۔ ہاں اگر مقصد حیات کی بات ہو تو میں کہوں گا کہ معصیت کے تمام تر احساس کے باوجود اپنے اللہ تک پہنچنا ہی میری زندگی کا ہدف اول تھا۔ باغ گل سرخ اتنی مختصر کیوں ہے کیا آپ لکھتے کم ہیں یا پھر اپنے لکھے ہوئے کو اپنے معیار کے میزان پر پرکھتے ہوئے خود ہی رد کر دیتے ہیں؟ شاعری میں بہت وقفے آئے، میں بہت زیادہ نہیں لکھ پاتا، پڑھتا بہت زیادہ ہوں، بہت سی ایسی نظمیں اور شعر ہیں، میں نے جذبات کے فوری بہائو کے پیش نظر لکھے، مگر کتاب میں شامل نہیں کئے۔ فیض صاحب کی آخری کتاب مرے دل مرے مسافر ان کی پہلی کتابوں کی نسبت بہت مختصر تھی۔ اسی طرح فرانس کے نثری نظم کے بانی شاعر چارلس بولڈے کی آخری کتاب سو صفحوں سے بھی کم تھی آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ عمر کے ساتھ تخلیقی بہائو کم ہو جاتا ہے۔؟ ایسا ہوتا ہے مگر استثنیٰ بھی موجود ہیں۔ شاید زندگی میں کچھ ٹھہرائو آ جاتا ہے۔ اس کتاب میں شعر کے مضامین پہلی شاعری سے مختلف ہیں، یوں آپ کی شاعری میں صرف روایتی ہجر وصال کے موضوعات کبھی بھی نہیں رہے۔زندگی کی بہت سی حقیقتوں کے تلخ و شیریں زاویے آپ کی شاعری میں چھلکتے ہیں۔ جی ہاں ایسا ہی ہے اس میں کچھ مختلف موضوعات ہیں۔بڑھتی ہوئی عمر اور زندگی کے ماہ وسال کے تجربے ایک سے نہیں رہتے۔تموج اور اضطراب قدرے سکون و سپردگی کی طرف بڑھتا جاتا ہے۔ ہیجان اور ہذیان سے ذرا مختلف !افتخار عارف اپنے مخصوص دھیمے ٹھہرے تہذیبی اطوار میں گندھے لہجے میں بول رہے تھے اور میرا ذھن باغ گل سرخ کی کئی ایسی غزلوں کی جانب گیا جو ایک عمر برتنے کے بعد ہی شاعر کے احساس پر اتر سکتی ہیں اور جب ہم ان غزلوں کو افتخار عارف صاحب کی ادبی زندگی کے تناظر میں دیکھتے ہیں، تو ان کی معنویت اور بھی کھل کر سامنے آتی ہیں۔ زندگی کی 76بہاریں گزاریں۔ ہجر و وصال کے صحرائوں سے گزرے۔ دوستی‘ محبت‘ آشنائی کے سلسلے دیکھے بدگمانیاں سہیں، حاسدین کی دشنام طرازیاں برداشت کیں، بھر اعزازات انعامات عہدے اور دنیا بھر میں اردو شاعری سے محبت کرنیوالے لاکھوں مداحین کی بے غرض اور بے لوث محبتیں بھی سمیٹیں۔ بطور شاعر اردو ادب میں برصغیر پاک و ہند میں وہ مقام جو کم کم ہی کسی کو ملا پھر بھی شاعر کے دل پر زندگی کی رائیگانی کا احساس آشکار ہوتا ہے تو وہ پکارتا ہے: آنکھ کی نمی بھی رائیگاں دل کی روشنی بھی رائیگاں کاروبار عشق بھی فضول خبط آگہی بھی رائیگاں منہدم جہان نقش و عکس صوت سرمدی بھی رائیگاں عارضی مسرتیں بھی خاک دردِ دائمی بھی رائیگاں چھوٹی بحر کی اس غزل کے ہر شعر میں آگہی کا ایک جہاں آباد ہے۔ تصوف کے رنگ میں ایک خوب صورت غزل اور دیکھیے: میان عرصہ موت و حیات رقص میں ہے اکیلا میں نہیں کل کائنات رقص میں ہے یہ جذب و شوق یہ وارفتگی پہ وجدوو فور میں رقص میں ہوں کہ کل کائنات رقص میں ہے ہر ایک ذرہ ہر اک پارہ زمین و زمان کسی کے حکم پر دن ہو کہ رات رقص میں ہے جب سفر کی سمت بیرون ذات کی بجائے اندرون ذات ہو تو خود شناسی کی حامل ایسی غزل کہی جا سکتی ہے: یاد یاراں سے مہکتا رہے باغ گل سرخ لو دیے جائیں اندھیرے میں چراغ گل سرخ روایت یہ ہے کہ جس کی سالگرہ ہو اسے تحفہ دیا جاتا ہے مگر یہاں شاعر نے باغ گل سرخ کی صورت اپنے پڑھنے والوں کو اپنی سالگرہ پر تحفہ دیا ہے۔محبان افتخار عارف بھی سالگرہ پر پرخلوص دعائوں کے تحفے اور مبارکباد پیش کرتے ہیں!! ٭٭٭٭٭٭