عید تو ایک ڈیڑھ دن میں ہی اختتام پذیر ہو گئی‘مگر اس کے ’’آفٹر شاکس‘‘کافی دنوں بعد تک محسوس ہوتے رہے۔ بالخصوص عید اور اْس کی چھٹیوں میں عید کا چاند او اس کی ’’رویت‘‘سوشل میڈیا پر’’ٹاپ ٹرینڈ‘‘رہے۔میرا خیال ہے کہ ارباب حل و عقد کو اس بحران کا اندازہ نہ تھا‘ وگرنہ رمضان المبارک کی طرح‘ شوال المکرم کا چاند دیکھنے کے لئے بھی‘ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس پشاور میں منعقد کرتے ہوئے‘ بہت سے مسائل و تضادات سے محفوظ و مامون رہا جا سکتا تھا اور یوں پشاور میں مرکزی کمیٹی کی موجودگی کے سبب‘وہ شہادتیں جو مقامی سطح پر موصول ہو رہی تھی‘ کو براہ راست دیکھنے‘ سننے اور جانچ‘ پرکھ کرنے کا موقع میسر آ جاتا اور فیصلہ سازی و نتیجہ خیزی…تیز گام اور سِْبک خرام رہتی۔میرے خیال میں عید کے چاند کی رویت کے حوالے سے‘مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا کیس اتنا کمزور نہیں تھا‘صرف پیش’’Pleade‘‘کرنے میں ذرا کمزوری ہوتی‘ جس میں بے جا تاخیر بھی ایک اہم عنصر ہے‘ جو لوگوں کے لئے اکتاہٹ اور بیزاری کا باعث بنی‘ بالخصوص جبکہ ڈاکٹر پیر نور الحق قادری وفاقی وزیر مذہبی امور کی درگاہ پیرو خیل شریف، لنڈی کوتل سے سات شہادتیں موصول ہو گئیں تھیں اور پھر صاحبزادہ پیر جنید آف مانکی شریف جو کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر بھی ہیں، کے مطابق جامعہ جنیدیہ غفوریہ پشاور کے شیخ الحدیث ان گواہیوں کو ‘‘examin‘‘ کرنے کے بعد‘ صوبائی زونل رویت ہلال کمیٹی پشاور کے چیئرمین شیخ الحدیث مولانا احسان الحق کے روبرو پیش فرما گئے اور وہاں پر یہ شہادتیں مقبول و مبروک قرار پا گئیں‘ تو پھر مزید کچھ نہ بھی میسر آتا تو یہی کافی تھا‘ مستزاد یہ کہ ڈپٹی کمشنر گوادر کا مرکزی رویت ہلال کمیٹی سے اسلام آباد میں رابطہ کرتے ہوئے یہ مطلع کرنا کہ انہیں اسسٹنٹ کمشنر پسنی نے اطلاع دی ہے کہ ان کے علاقے میں مولانا فقیر محمد سمیت سات لوگوں نے چاند دیکھا ہے۔ مرکزی کمیٹی کا مولانا فقیر محمد سے فون پر ازخود رابطہ اور معاملے کی براہ راست تصدیق و توثیق،اسی طرح مولانا محمد یوسف (چمن‘ بلوچستان) جن کی اطلاع پر گزشتہ سال بھی مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے عید کے چاند کی رویت کا فیصلہ کیا‘ کی طرف سے بھی مرکزی کمیٹی کو آگاہ کرنا کہ انہیں اب تک چاند دیکھنے کی بارہ شہادتیں موصول ہو چکی ہیں اور علماء کی کثیر تعداد نے ان شہادتوں کو بعدازجائز درست قرار دیا ہے۔ دوسری طرف سائنس ٹیکنالوجی‘ موسمیات اور سپارکو وغیرہ کا اپنا نقطہ نظر ہے‘ جیسے کراچی یونیورسٹی کے ڈائریکٹر اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ: علم فلکیات کے تحت 12مئی کو چاند نظر آنے کا امکان نہ تھا‘ بلکہ ان کے مطابق چاند کو ٹیلی اسکوپ سے بھی دیکھنا ممکن نہ تھا‘ان کے خیال میں چاند نظر آنے کے لئے ، چاند کو،کم از کم 8ڈگری ہونا چاہیے‘ جبکہ پشاور میں یہ 6ڈگری سے بھی کم تھا…ان دونوں طبقات کے ماھرین کی آرا اور دعووں میں تطبیق کون کرے گا،اور کس طرح ہوگی…؟ مختصر یہی ھے کہ ’’انتیس کی عید‘‘ کا اپنا ہی ایک لطف ہے۔ جو گزشتہ سال کی طرح امسال بھی پورا ہو گیا۔ہمارے پنجاب کے ڈائریکٹر موسمیات محمد اسلم صاحب بھی اسی خیال کے حامی تھے‘ مگر 12مئی کو ہم ایوان اوقاف کی آٹھویں منزل پر اکابر علماء اور ماہرین کی ایک وقیع جماعت کے ساتھ… اس روایتی دوربین کے سامنے ایستادہ تھے۔ جسے لغوی اور اصطلاحی زبان میں’’زاویہ پیما‘‘ (theodolite)کہا جاتا ہے‘ لیکن…بارش نے آ لیا۔ لاہور اور اس کے گردو نواح میں چاند نظر آنے کا اختتامی وقت 7.28بجے شام‘ تک تھا جبکہ اس ریجن میں 7.42 بجے،اور ہم 45رصد گاہوں سے رابطے میں بھی تھے۔ لیکن…اصل کام تو پشاور‘ مردان‘ پسنی‘ چمن والوں کا ہے‘ جنہوں نے ہمت نہ ہاری اور یوں اللہ کے فضل و کرم سے روز عید کی خوشیاں اورسعادتیں میسر آئیں اور برستے بادلوں میں‘ گورنر پنجاب چوھدری محمد سرور کی ہمراہی میں ‘بادشاہی مسجد میں نماز عید ادا ہوئی‘ اب اوپر سے گلے ملنے اور مصافحے و معانقے پر پابندی تھی اور ہونی بھی چاہیے کہ ’کوویڈ۔19‘‘ کے حکومتی ایس او پیز کا یہی تقاضا تھا اور اسی میں بہرحال انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہم سب کی عافیت ہے‘ ہمیں اس میں زیادہ سے زیادہ استاد قمر بدایونی ہی سے معذرت خواہی ہوئی اور امید ہے کہ موجودہ ملکی اور بین الاقوامی صورتحال کے پیش نظر انہوں نے بھی ہمارا عذر قبول کر ہی لیا ہو گا۔ استاد صاحب نے عید کے لئے بہت پہلے فرمایا تھا کہ: عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے ویسے موجودہ کورونا بحران کے سبب عید کی Celebrations بھی کافی سہمی سہمی بلکہ قدرے قدرے‘ بھیگی بھیگی رہیں۔ جیسا کہ ظفر اقبال نے کہا تھا: تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائیگی عید اب کے تو دبے پائوں گزر جائیگی اسلم کولسری ہمارے عہد کا شاعر ہے‘ اس نے برسوں پہلے عید کے موقع پر خود کو ’’قرنطینہ‘‘ کر کے کہا تھا: عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلم اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے ویسے عید پر طبع آزمائی کے لئے حضرت اقبال کو بھی ان کے چاہنے والوں نے خوب ابھارا تھا‘ چنانچہ مولوی نظام الدین حسین نظامی‘ مالک نظامی پریس و ایڈیٹر ’’ذوالقرنین‘‘ بدایوں (یوپی) نے اگست 1915ء میں حضرت اقبال سے فرمائش کی کہ عید کے شمارے کیلئے چند شعر کہہ دیں‘ چونکہ اقبال ان دنوں ترکوں کی زبوں حالی سے بہت مغموم تھے‘ اس لئے انہوں نے مقتضائے حال کے مطابق‘اپنے دل کی ترجمانی کرتے ہوئے‘ شگفتہ نظم کی بجائے‘ قوم کا یہ مرثیہ کہہ دیا جو اگست 1915ء کو ’’ذوالقرنین‘‘ میں شائع ہوا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہو چکی ہے کہ ان کو عید کی خوشی منانا زیب ہی نہیں دیتا۔عجب اتفاق کہ ستائیسویں شب اور اس کے بعد سے، نہتے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے گئے اور اسرائیلی طیاروں کی بلا جواز بمباری سے غزہ میں شہدأ کے جس طرح لاشے اٹھے اس نے اقبال کے ان اشعار کی معنویت کو اور زیادہ تازہ کر دیا ہے: خزاں میں مجھ کو رلاتی ہے یادفصل بہار خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں میں اْجاڑ ہو گئے عہد کہن کے مے خانے گزشتہ بادہ پرستوں کی یادگار ہوں میں پیام عیش و مسرت ہمیں سناتا ہے! ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے! بانگ درا ہی میں اقبال نے ’’ہلال عید‘‘ کا بھی عنوان باندھا تھا: غزۂ شوال!اے نور نگاہ روزہ دار آ کہ تھے تیرے لئے مسلم سراپا انتظار تیری پیشانی پہ تحریر پیام عید ہے شام تیری کیا ہے صبح عیش کی تمہید ہے سرگزشت ملّت بیضا کا تو آئینہ ہے اے مہ نو!ہم کو تجھ سے الفت دیرینہ ہے