افغانستان سے آنے والی ہر خبرانتہائی روح فرسا اور دل فگار ہوتی ہے ،انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اس ڈیجیٹل دور میں جب ایسی خبر وںکے ساتھ خوں آلود تصاویر بھی دیکھنے کو ملتی ہے تو ایک حساس طبع انسان خود کو بڑی اذیت سے گزرناپڑتا ہے۔ تیس اپریل کی شام افطاری کے بعداس بدقسمت ملک کے صوبہ لوگر میں ہونے والا دھماکہ رواں سال کا سب سے دل فگار سانحہ تھا ۔یہ حملہ لوگر کے پُلِ علم شہر میں واقع مکان کے اندر ہوا جوکئی سال پہلے لوگر کے صوبائی شوریٰ کے سابق چیئرمین ڈاکٹرعبدالولی نے غریب طلباء اور مسافروں کی اقامت کیلئے وقف کیاہواتھا۔حملہ میں شہید ہونے والے تیئیس افراد کا تعلق ضلع ازرے کے ’’اکبرخیل ‘‘ نامی دیہات سے تھا جن میں اکثریت غریب طلبا کی تھی جویونیورسٹی میں انٹری ٹیسٹ کیلئے وہاں پر تیاری کررہے تھے ۔کہا جاتاہے کہ حملے کے روز ایک عمررسیدہ شخص (جس نے خود کو انہیں ایک فلاحی ادارے کا خدا ترس بندہ باور کرایا تھا) اس مکان میں داخل ہوا تھا اور وہاں پر مقیم طلباء سے ان کے نام کی فہرست مانگ کر ان سے مالی تعاون کرنے کا وعدہ کرکے چلا گیا۔ اگلے روز جمعہ کی شام عین افطاری کے وقت وہی شخص ایک ڈاینا گاڑی کواس مکان میں لایا جس میں عید کے کپڑے اور افطاری کیلئے تربوز بھی موجود تھے۔کہا جاتاہے کہ اس شخص نے وہاں پر لوگوں کے ساتھ افطاری بھی کی اور لوگوں کو یہ کہہ کر خود پراسرار طور پر روپوش ہوگیا کہ گاڑی میں رکھے ہوئے کپڑوں میں سے ہر ایک اپنی پسند کی عید سوٹ منتخب کرلیں۔ بظاہر عید کے تحائف اور افطاری کے میوہ جات سے لدی گاڑی حقیقت میں بارود سے بھری ہوئی تھی جو کچھ دیر بعد ایک زوردار دھماکے سے پھٹ پڑی ۔ افطاری کے مبارک موقع پر اس نامبارک سانحے کے نتیجے میں چوبیس افراد شہید اور ایک سوبیس کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے ۔ان شہدا کے ایک قریبی رشتے دار اپنے سوشل میڈیا پیج پر لکھتے ہیں کہ " میں نہیں چاہتا کہ تم سے ایسی پرآشوب بات شیئر کردوں مگر پھر بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کی خاطر اس حوالے سے کچھ باتیں کرتا ہوں، وہ مزید لکھتا ہے کہ اس حملے میں سبھی شہدا یا تو ان کے قریبی رشتے دار تھے اور ان کے گائوں والے تھے- ان کے تجہیز و تکفین کے موقع پرکچھ رقت آمیز منظر میں نے دیکھے، جن میں ایک لمحہ وہ تھاجب ان تیئیس شہداء کے جیبوںسے مجموعی طور پر اکیس سو تیس افغانی برآمدہوئے ،اور سب سے بڑھ کر المیہ تو یہ تھا کہ ان میں بہت سے لوگ اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے"۔ لوگر حملے کے ہفتہ آٹھ دن بعددرندصفت دہشتگردوں نے کابل کے دشت برچی علاقے میں واقع سیدالشہداء نامی ایک گرلز سکول کو پے درپے تین بم حملوں سے نشانہ بنایا۔ان حملوںمیں متاثر ہونے والوں میں زیادہ ترلڑکیاں تھیں جو حملے کے وقت سکول کی عمارت سے باہر نکل رہی تھیں ۔ اس حملے میں شہدا کی تعداد ہر گھنٹے بعد بڑھتی گئی یہاں تک کہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں کم سے کم پچاسی افراد شہید اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔طالبہ زہرا اس وقت سکول سے نکل رہی تھی جب یہ قیامت ٹوٹ پڑی۔ وہ معجزانہ طور پر بچ گئی تاہم ان کی بے شمار کلاس فیلوز شہید ہوگئیں‘‘۔ریزہ نامی ایک خاتوں کے مطابق انہوں نے جائے وقوعہ پر ہر طرف انسانی اعضاء ہی اعضاء اور خون ہی خون دیکھا ۔ ایک طرف ایک خاتوں کو دیکھاجو لاشوں کے بیچ اپنی بیٹی کو تلاش کر رہی تھی، بعد میں اسے اپنے لخت جگر کا خوں آلود پرس مل گیا اور وہ بے ہوش ہوکرزمین پر گر گئی‘‘۔ دشت برچی اسکول کے اس بھیانک منظر کی ویڈیوکلپس مجھ سے دیکھے نہیں جاسکتے تھے ،بلکہ وہاں سے آنے والی تصاویر بھی انسانی دل کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی تھیں۔ جس تصویر نے مجھے آدھے گھنٹے سے زیادہ دیکھنے پر مجبور کرکے رُلایا وہ ایک سات سالہ بچی کی تصویر تھی جس کے ایک ہاتھ میں ایک پھٹی ہوئی کتاب ہے اور دوسرے ہاتھ میں دوات دکھائی دیتی ہے ۔ یہ ننھی گڑیا اس خوں آلود منظر سے اتنی خوفزدہ دکھائی دیتی ہے کہ زخمی ہوئے بغیر زور زور سے امن کیلئے چلا چلا رہی ہے ۔یہ تصویر دراصل ایک خون آلود اور چاروں اطراف سے زخموں میں گھرے ہوئے افغانستان کی تصویر ہے اور ان قوتوں کو طعنہ دے رہی ہے جو انسانی حقوق اور امن وآشتی کا ڈھول پیٹنے کے باوجود افغانستان کو پرامن دیکھنا نہیں چاہتے۔ مجھے ایسا لگتاہے کہ یہ تصویر رحمت شاہ سائل کی زبان میں بتارہی ہے کہ : پہ خپل وطن کی جنگ را پہ سر دے ھلتہ ھم زہ مرم دلتہ ھم زہ مرم پردے ٹوپک دے پردے سنگر دے ھلتہ ھم زہ مرم دلتہ ھم زہ مرم اے نڑئی والو! اے امن دوستو، د جنگ پرستو مٹ د نیوو دے پہ ما قیامت دے پہ ما محشر دے ھلتہ ھم زہ مرم دلتہ ھم زہ مرم ’’اپنے ہی دیس میں مجھے ایک ایسی جنگ سے پالا پڑا ہواہے جس میں پرائی بندوق اور پرایا مورچہ استعمال ہورہاہے جبکہ نتیجے میں یہاں بھی اور وہاں بھی میں مرتاجارہاہوں۔امن کے گیت گانے والو !کیا اب وقت نہیں آیا ہے کہ جنگ پرستوں کا ہاتھ روکا جائے کیونکہ مجھ کے اوپر ایک قیامت ٹوٹی ہے اور ہر طرف میں ہی مر رہا ہوں‘‘۔