چین کے ساتھ بھارت کی حالیہ ٹکر نے اس خطے میں ہی نہیں بلکہ عالمی سیاست کا منظر نامہ بھی بدلنا شروع کردیا ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان جنگ بندی ہوبھی جائے لیکن چینیوں کے ہاتھوں ہونے والی ہزیمت نے بھارتیوں کی روح پر گہرے زخم لگائے ہیں۔یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ بھارت کی سیاسی اور عسکری لیڈرشپ چین سے لڑنے کی استعداد رکھتی ہے اور نہ سیاسی عزم۔ ایک بہت ہی مختلف چین سے بھارت کا واسطہ پڑھاہے جو جارہانہ انداز سیاست اور سفارت کاری اختیار کرچکاہے اور اپنے موقف پر ڈٹ جاتاہے۔لداخ کی گلوان ویلی میں چین نے ساٹھ مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کرلیا اور نہ صرف پرانی پوزیشن پر واپس جانے سے انکار ی ہے بلکہ مزید علاقے پر بھی اپنی حاکمیت کا دعویٰ کرتاہے۔ آسان لفظوں میں جس علاقے پر چین نے حالیہ دنوں قبضہ کیا وہ مذاکرات یا سفارتی کاری کے ذریعے اس سے دستبردار ہونے والا نہیں۔دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات بحال کرنے کا امکان کم ہے بلکہ غالب امکان ہے کہ بھارت امریکہ اور چین مخالف اتحادیوں کے اور قریب ہوجائے گا۔ چین کے خلاف ان کے عزائم کا آلہ کار تو وہ پہلے ہی تھا لیکن کھل کر سامنے نہیں آرہاتھا۔ اب حالات بدل رہے ہیں۔ بھارت نے آسڑیلیا کے ساتھ دفاعی معاہدے کیے ہیں جو براہ راست چین کی سلامتی کو متاثر کرتے ہیں۔ بھارت اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے ایگزیکٹو بورڈ کا بھی رکن بن گیا ہے جس پر دباؤ ہے کہ وہ چین کے خلاف تحقیقات کرے کہ اس نے کورونا وائرس کے حوالے سے معلومات کا عالمی اداروں سے تبادلہ کرنے میں غفلت یا سستی تو نہیں کی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہی کی طرح ساٹھ کی دہائی میں پنڈٹ جواہرلال نہرو بھی مقبولیت کی لہر پر سوار تھے۔ الیکشن پر الیکشن جیت رہے تھے ۔ لداخ میں چین کے ساتھ شروع ہونے والی معمولی جھڑپیں جلد باقاعدہ جنگ کی شکل اختیا ر کرگئیں ۔بھارت کو شکست ہوگئی اور چین نے ہتک آمیز طریقے سے یک طرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کردیا۔نہرو اس جنگ میں مقبولیت بھی کھو بیٹھے اور شکست کا دکھ ان کی صحت کے لیے مہلک ثابت ہوا۔ نہرو نے وزیردفاع کرشنا مینن جو ان کے قریبی رفیق کار بھی تھے کی بلی چڑھا کر اپنی گردن بچانے کی کوشش کی۔ مخالف دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور معاشرے کے فعال طبقات چین کے ہاتھوں شکست کے بعد نہرو کو معاف کرنے پر تیار نہ تھے۔ حتیٰ کہ نہرو کو اپنے سائے سے بھی خوف آنے لگا۔ وہ سیاسی طور پر کمزور ہوگئے۔اقتدار پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑھ گئی ۔ جسمانی طور پرچاک وچوبند نہرو پیلے پڑگے۔ دو سال بعد شکست خوردہ نہرو اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ مودی جو پہلوانوں کی طرح چھاتی پر مکے مارتے۔ پاکستان کو دھمکاتے۔ سرجیکل اسٹرئیک کا دعوی کرتے۔ بالاکوٹ پر فضائی حملوں پر داد وتحسین وصول کرتے۔ پاکستان کو سبق سکھانے کے نام پر مودی نے الیکشن جیتااور دوتہائی اکثریت حاصل کرلی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے یارانہ اور امریکہ کی بچھائی ہوئی عالمی سیاست کا مہرہ بن کر مودی سرکار غیر ضروری خوداعتمادی کا شکار ہوئی۔چین کے خلاف امریکی گھوڑا بننے کی قیمت کا اسے پوری طرح اندازہ نہ تھا۔ پڑوسیوں سے مخاصمت ہمیشہ گھاٹے کا سودا ہوتاہے۔ سیاستدان ہی نہیں بلکہ سنگھ پری وار میں بھی وزیراعظم نریندر مودی کے سیاسی فہم اور بین الاقوامی تعلقات کی پیچیدگیوں کے ادراک پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ مودی مخالف سیاستدان ہی نہیں بلکہ پکے سچ دیش بھگت بھی استفسار کررہے ہیں کہ کیا بھارتی حکومت ملکی سلامتی اور جغرافیائی وحدت کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں؟علاوہ ازیں بھارت کے اندر چین مخالف جذبات اپنے عروج پر ہیں۔ چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم جاری ہے۔چین کی بھارت میں سرمایہ کاری کے راستے میں روڑے اٹکانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔خاص طورپر کہاجاتاہے کہ انٹرنیٹ یا 5 جی کے لیے انفراسٹرکچر نہیں بنانے دیا جائے گا یا اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی۔کانگریس اور بی جے پی کی حریف سیاسی جماعتیں بھی تلواریں نیام سے نکال چکی ہیں اور پوچھ رہی ہے کہ کس طرح چین نے بھارتی علاقے پر قبضہ کیا؟ بیس فوجی مارڈالے اور بھارتی وزیراعظم بیانات جاری کرنے کے سوا کچھ نہ کرسکے بلکہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ معاشی حالات پہلے ہی دگرگوں تھے ۔ شرح ترقی مسلسل گرواٹ کا شکار تھی۔ رہی سہی کسر کورونا وائرس نے نکال دی۔ چین کے ساتھ شروع ہونے والے بحران نے سیاسی اور فوجی برتری کا خمار بھی اتار دیا۔ حالات نے حکومت مخالف سیاستدانوں کو بھی حوصلہ دیا کہ وہ بی جے پی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیں۔ کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی کہتے ہیں کہ یہ نریندر مودی نہیں‘ سرینڈر مودی ہیں۔ بھارت کے ممتاز دفاعی تجزیہ کار برہما چیلینی نے جاپان ٹائمز میں لکھا کہ مودی چین کی خوشامند میں حد سے گزر گئے تھے۔ ان کا خیال تھا اس طرح وہ چین کیساتھ تعلقات ڈھب پر لے آئینگے اور پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات کو کمزور کرانے میں کامیاب ہوجائینگے۔ چین کو راضی اور خوش کرنے کیلئے بھارتی حکومت نے تبت کے جلاوطن رہنما دولائی لامہ کیساتھ سرکاری تعلقات کے خاتمے کا بھی اعلان کیا لیکن چین کا دل نہ جیتاجاسکا۔ یہ ہی تجزیہ کار مزید لکھتے ہیں کہ مودی نے سفارت کاری کو اپنی ذات کے گردگھمایا اور اداروں کو کمزور کیا۔ چنانچہ انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ابھی یہ کہنا کہ بی جے پی کی حکومت کا دھڑن تختہ ہونے جارہاہے قبل ازوقت ہے لیکن مودی کی بہادری ، شجاعت اور سفارتی مہارت کی دھاک ٹوٹ ہوچکی ہے۔ان کی طلسماتی شخصیت کا سحر ٹوٹ رہاہے۔ لوگ اب سوال کرتے ہیں کہ چین کے ساتھ لڑائی سے کیا حاصل ہوا۔ امریکہ بھارت کی مدد کو کیوں نہ آیا۔بلکہ چین اورپاکستان اور قریب ہوگئے۔ اب چین لداخ اور گلگت بلتستان کی بھی بات کررہاہے۔