لاہور، اسلام آباد(سٹاف رپورٹر،خصوصی نمائندہ،92 نیوزرپورٹ،نیوزایجنسیاں)مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی شہباز شریف اور جمعیت علماء اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان آزادی مارچ کے حوالے سے ملاقات ہوئی جس میں حکومت کو گھر بھیجنے اور ملک میں نئے عام انتخابات کرنے کے مطالبہ پر اتفاق کیا گیا جبکہ ن لیگ نے 31اکتوبر کوجلسہ میں بھرپورشرکت کااعلان کردیا۔ گزشتہ روز ماڈل ٹائون لاہورمیں واقع شہباز شریف کی رہائش گاہ پر دونوں جماعتوں کے قائدین نے وفود کے ہمراہ ملاقات کے دوران آزادی مارچ ،ملکی سیاسی صورتحال پر حکمت عملی تیار کرنے پر بات چیت کی۔ فضل الرحمٰن کے ہمراہ مولانا عبدالغفور حیدری، مولانا امجد علی خان جبکہ شہبازشریف کیساتھ احسن اقبال ، امیر مقام، حنیف عباسی، مریم اونگزیب، ملک پرویز اورخرم دستگیر تھے ۔بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہبازشریف نے کہا کہ ہر میدان میں حکومت کی کارکردگی صفر ہے ،اچھی اور صحت مند حالات میں معیشت موجودہ حکومت کو ملی،لیکن اس نے پاکستان کو تباہ کر دیا۔عمران خان اپنی ناکامی کا بوجھ اداروں پر ڈالنا چاہتا ہے ۔میں وقت سے پہلے کام کرنے کا عادی ہوں۔اگر شفاف انتخابات ہوئے اور ہمیں موقع ملا تو 6 ماہ میں اسی تباہ معیشت کو مکمل بحال کر کے دکھائیں گے ۔ فضل الرحمٰن کو خوش آمدید کہتے ہیں،ملاقات میں ملکی صورتحال پر بحث کی گئی ، ملکی صورتحال تباہی کے دہانوں تک پہنچ چکی ہے ۔ ملکی معیشت بدترین سطح پر ہے ۔سرمایہ کاری ختم ہو چکی ہے ، مہنگائی عروج پہ ہے ۔ عام آدمی کی زندگی مشکل ہوچکی ہے ،علاج ادویات ناپید ہے ، ادویات کی قیمتیں اتنی بڑھا دیں کہ عام آدمی سسک کر جان دے رہا ہے ۔ابھی ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ 2020 میں جی ڈی پی 2 اعشاریہ 4 رہنے کا امکان ہے ۔کہاں 5.8 جی ڈی پی تھی اور کہاں2اعشاریہ 4 ہوگی ،آج یہ سب کچھ پی ٹی آئی اور عمران خان کی بدترین ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ،اداروں نے عمران خان کی بھرپور سپورٹ کی کہ شاید ملک ترقی کرنا شروع کردے ۔اس تاریخی سپورٹ کے باوجود عمران خان بری طرح ناکام ہو چکا ہے ۔اگر اس طرح کی سپورٹ کسی اور حکومت کو ملتی تو پاکستان ترقی کی طرف گامزن ہوتا۔ کراچی سے پشاور تک پوری قوم یکسو ہے ،جلد سے جلد اس حکومت کو گھر جانا چاہئے اور نئے انتخابات ہونے چاہئیں۔ملکی حالت انتہائی ابتر ہے ۔مولانا سے محبت اور احترام کا رشتہ ہے ۔ آزادی مارچ مولانا کرنے جارہے ہیں،نوازشریف کی طرف سے ہدایات ہمیں مل چکی ہیں،31 اکتوبر کوجلسہ میں بھرپور شرکت کرینگے ،اگلا لائحہ عمل وہیں پیش کرینگے ،31اکتوبر کو اسلام آباد میں پاکستان زندہ باد کہیں گے ۔مسلم لیگ ن اس مارچ کی بھرپور تائید کرتی ہے ۔ قوم سے وعدہ کرتا ہوں کہ نئے شفاف الیکشن کے نتیجہ میں اگر ہمیں موقع ملا تواسی تباہ حال معیشت کو 6ماہ میں اپنے پائوں پر کھڑاکردینگے ۔ اس موقع پرمولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ حکومت پہلے استعفیٰ دے اور گھر جائے پھر بات ہوگی۔حکومت کی گفتگواور لب و لہجہ سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک طرف مذاکرات اور دوسری طرف گالیاں ہیں۔تنقید ، گالیاں، اور مذاکرات اکٹھے نہیں ہوتے ۔ میں ن لیگ اسکے قائد نواز شریف، صدر شہباز شریف اور دیگر عمائدین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آج حتمی طور پر مسلم لیگ ن نے اسلام آباد کی طرف مارچ کرنیکا فیصلہ کر لیا ہے ،مارچ میں ن لیگ کے تمام لوگ شریک ہونگے اور ہماری قوت میں اضافہ کر رہے ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ہمارے ساتھ ہیں۔ حکومت ناجائز بوجھ ہے اور نااہل بھی۔27 اکتوبر کشمیریوں سے یکجہتی کا دن ہے ، یہ وہ دن ہے جب بھارتی فوجیں مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئیں۔دور دراز سے قافلے 27 اکتوبر کو چلنا شروع ہو جائینگے اور 31 اکتوبر کو اسلام آباد پہنچیں گے ۔31 اکتوبر کو لاکھوں کی تعداد میں عوام اسلا م آباد میں داخل ہونگے ۔علاوہ ازیں فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالٰہی سے 40منٹ تک ملاقات کی جس میں سیاسی صورتحال اورآزادی مارچ پرتبادلہ خیال کیاگیا۔مولانا نے آزادی مارچ کے معاملہ پرکھل کربات کی،چودھری برادران نے انکاموقف تفصیل سے سنا جبکہ مارچ سے متعلق اپنے موقف سے آگاہ کیا اور حکومتی خدشات بھی کھل کر مولانا کے سامنے بیان کردیئے ۔ فضل الرحمٰن نے کہا کہ موجودہ سیاسی ماحول میں چودھری شجاعت کی سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے ،انکی ملک کیلئے خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔فضل الرحمٰن اور انکے وفد نے چودھری شجاعت کو صحت یابی پر مبارکباد دی اور کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے صحت کیساتھ وطن واپسی پر آپ کو ملک کی خدمت کرنے کا موقع فراہم کیا ہے ۔شجاعت حسین نے کہا کہ ملک وقوم کی خدمت کیلئے میں ہروقت حاضر ہوں۔فضل الرحمٰن کے وفد میں سینیٹر طلحہ محمود، مولانا عبدالغفور حیدری، مولانا امجد و دیگر رہنما شامل تھے ، جبکہ اس موقع پر وفاقی وزیر ہاؤسنگ طارق بشیر چیمہ، ارکان قومی اسمبلی مونس الٰہی، سالک حسین، صوبائی وزیر معدنیات حافظ عمار یاسر، شافع حسین اور چودھری گلزار بھی موجود تھے ۔