کوئی رُبع صدی ادھر کی بات ہے کہ لاہور کے پرانی انارکلی میں واقع الحمد پبلی کیشنز سے میرے شگفتہ خاکوں پر مشتمل پہلی کتاب ’’قلمی دشمنی‘‘ اشاعت پذیر ہوئی۔ اس حوالے سے وہاں آناجانا لگا رہتا تھا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب وہاں ادیبوں شاعروں کا جمگھٹا لگا رہتا اور دورانِ گفتگو مزے مزے کے جملے اور چٹکلے وجود میں آتے، جن میں بہت سے تو ناقابلِ اشاعت کے زُمرے میں آتے ہیں (مثال کے طور پہ جناب احمد ندیم قاسمی کے ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور کو بہنیں بنانے پر جناب احمد راہی کا سنایا ہوا منٹو کا چٹخارے دار تبصرہ یا شہزاد احمد کا ایک نوجوان شاعر کے پی ٹی وی کے گیٹ پہ زنانہ عملے سے تلاشی کی خواہش پر کسا ہوا پھڑکتا جملہ وغیرہ )لیکن مسموع واقعات کی بھی کچھ کمی نہیں تھی۔ایک دن جناب احمد راہی ترنگ میں تھے اور فلم ہیر رانجھے کے گانوں کی بابت بتاتے ہوئے کہنے لگے: مَیں نے اس فلم کے گانوں کا ایڈوانس تو پکڑ لیا اور ایک دو گانے کے خوب صورت بول بھی ذہن میں آ گئے، جس کا زنانہ اظہار کچھ یوں تھا: اوہ ونجھلی والڑیا! وے توں تاں موہ لئی اوہ مٹیار کدی نئیں جنّے سی مَنّی ہار اوہ تینوں کر بیٹھی اُو پیار ونجھلی والڑیا! وے ایہ گل بھُلیں نہ کہتے ہیں اس کے بعد مَیں نے بہت زور مارا لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ فلم کا ہیرو، ہیروئن کو کیسے مخاطب کرے! ظاہر ہے وہ اسے ’ونجھلی والڑیے‘ تو نہیں کہہ سکتا تھا۔جب سوچ سوچ کے میرا ذہن ماؤف ہونے لگا تو مَیں نے ہار مان لی اور ایڈوانس واپس کرنے سٹوڈیو جا پہنچا۔ ایڈوانس واپس کر کے پلٹا ہی تھا کہ فلم کی ہیروئن فردوس آتی دکھائی دی، جب وہ قریب آئی اور اس کی ہرنی جیسی بڑی بڑی آنکھوں پر میری نظر پڑی تو میرا مسئلہ حل ہو گیا۔ مَیں نے معاوضہ دوبارہ لے کے جیب میں ڈالا اور وہیں بیٹھ کے گانا لکھ دیا: اوہ نیناں والڑیے! نی میری ونجھلی دی توں ایں تان توں ائیوں میرا دین ایمان تیتھوں وار دیاں جند جان نیناں والڑیے! نی ایہہ گل بھُلیں نہ یہ محفلیں کئی سال تک جمتی رہیں۔جناب احمد راہی، شہزاد احمد، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اور اے جی جوش(جو ان دنوں ادیبوں شاعروں کے اے جی آفس کے نام سے بھی مشہور تھے) تو وہاں اکثر بیٹھنے والوں میں سے تھے۔ احمد راہی کی ’ترنجن‘ کی نئی اشاعت اسی ادارے کی کوکھ سے پھوٹی۔ کبھی کبھی قتیل شفائی بھی تشریف لے آتے، ان دنوں ایک بھارتی شاعرہ رِشمی بادشاہ سے ان کے معاشقے کے بھی وہاں بہت چرچے ہوتے۔ شہزاد احمد کی جملہ بازی عروج پہ ہوتی۔ میاں نواز شریف کی ۱۹۹۳ء والی حکومت تھی، کسی نے ایک معروف کالم نگار کی بابت پوچھا کہ وہ آج کل لاہور ہی میں ہیں؟ شہزاد صاحب کہنے لگے کہ کل میاں نواز شریف چین کے دورے پر گئے ہیں، اور میاں صاحب باہر جاتے ہوئے دو اٹیچی کیس بھی لے کے جائیں تو سمجھیں دوسرا اٹیچی وہ کالم نگار ہیں۔ مجھے یاد ہے کچھ عرصے بعد میرے خاکوں کا ایک مجموعہ’’خاکہ نگری‘‘ اکادمی بازیافت کراچی سے خوبصورت انداز میں چھپ کے آیا تو شہزاد احمد کا داد دینے کا انداز یہ تھا: ’’اشفاق !تم بہت خوش قسمت ہو کہ اس عمر میں اتنا عمدہ مجموعہ کراچی سے چھپا ہے، وگرنہ ہمارے لاہور کے بہت سے شاعر ادیب اس حسرت ہی میں مر گئے کہ کاش ان کی کوئی کتاب کراچی سے چھپ جاتی۔‘‘ انھی دنوںجون ایلیا نے اپنے مجموعۂ کلام ’شاید‘ کی طباعت کے دوران کئی روز تک وہیں ڈیرہ جمائے رکھا۔ ان کی محافل بھی نہایت چلبلی اور انوکھی ہوتیں۔ جون ایلیا کی گفتگو اور حرکات دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں۔ اگر کسی کا شعر اچھا لگ جاتا تو وہ داد دیتے دیتے پلاکی مار کے شاعر کی گود میں جا بیٹھتے۔ ایک دن دولت و ثروت کے حوالے سے کسی سیٹھ صاحب کا ذکر آیا تو پوچھنے لگے:’ میاں وہ اتنا امیر ہے تو اس کے پاس تو تیس لاکھ روپے بھی ہو سکتے ہیں؟‘ کسی نے لقمہ دیا کہ تیس لاکھ کی تو اس کی اکیلی گاڑی ہے! سن کے فرمانے لگے: ’ہوگی، ضرور ہوگی… پر اَپن تو یہیں تک سوچ سکتے ہیں!!! ‘کسی نے باتوں باتوں میں پوچھ لیا کہ زاہدہ حنا اور آپ اتنے باشعور تھے، دونوں سلیبرٹی میں شمار ہوتے ہیں ، پھر علیحدگی سمجھ میں نہیں آئی؟ جھٹ بولے: ’بھئی میاں! اَپن تو اتنا جانتے ہیں کہ بیوی کو بیوی ہونا چاہیے، بقراط نہیں!!! ‘ اپنے پہلے مجموعۂ کلام’محبتیں جب شمار کرنا‘ کی اشاعت کے دوران وہاںنوشی گیلانی کا آنا جانا بھی لگا رہتا۔ نوشی سے ملاقاتوں کا سلسلہ اپنے دوست جمیل احمد عدیل اور عنبرین عدیل کے گھر بورے والا سے چلا آ رہا تھا۔ یہی ملاقاتیں نوشی کے خاکے کا سبب بنیں، جو میری کتاب ’ذاتیات‘ میں شامل ہے۔پھر ہم نے منور جمیل قریشی کو بھی ’دیکھو! یہ میرے زخم ہیں‘ کی صورت کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے یہیں دیکھا۔ عباس تابش اور سعداللہ شاہ سے بھی اکثر یہیں ملاقات رہتی، بعد میں یہ دونوں حضرات خود پبلشرز بن گئے۔ معروف مزاح گو شاعر جناب انور مسعود کے قطعات کاایک مجموعہ یہیں سے زیرِ اشاعت تھا۔ ایک روز وہ اپنے بے تکلف دوست، کولیگ اور خوبصورت شاعر رؤف امیر کے ساتھ تشریف لائے۔ رؤف امیر کی پہلی شادی کہیں بچپنے ہی میں ہو چکی تھی، جسے وہ احباب سے چھپاتے تھے اور خود کو ادھیڑ عمر میں کنوارہ ظاہر کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے جناب انور مسعود نے وہاں اسی تناظر میںفی البدیہہ کہا تھا: رؤف امیرا توں کلیاں ای مر جانا ایں او خنزیرا ! توں کلیاں ای مر جانا ایں انور مسعود صاحب صرف مزاحیہ شعری ہی میں رواں نہیں بلکہ وہ اپنی گفتگو میں بھی برجستہ جملوں، پھبتیوں اور مزے دار واقعات کی پھلجھڑیاں ٹانکتے چلے جاتے۔ ایک طرح سے پوری محفل ان کے لطف و کرم پر ہوتی ہے۔ ایک دفعہ سعداللہ شاہ، شہزاد احمد اور صفدر حسین ان سے ملنے گئے تو کسی دوست کو فون کر کے کہنے لگے: جلدی جلدی آ کے دیکھو میرے پاس ، س، ش اور ص آئے ہوئے ہیں۔ ایک دن مَیں مذکورہ پبلشر کے دفتر پہنچا تو انور مسعود صاحب اکیلے ہی تشریف فرما تھے، فارغ بیٹھنا تو ظاہر ہے کسی شاعر کے لیے ممکن نہیں ہوتا، لہٰذا وہ بھی کسی مڑے تڑے کاغذ پر لکھی کٹی پھٹی نظم پر طبع آزمائی میںمصروف تھے۔ نظم مختلف شو کیسوں میں سجی بنی ڈمیوں کے حوالے سے تھی، جسے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس نوجوان بھکارن حسرت و اشتیاق سے تک رہی ہے۔ کچھ دیر بعد نظم تو مکمل ہو گئی لیکن اس کے مناسب عنوان کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا تھا۔ پھر وہ نظم مجھے سنا کے کہنے لگے: ’’اشفاق! توں ای ایہداکوئی ناں رکھ دے، تیری وی تے بھتیجی لگدی اے!!‘‘ اے جی جوش نہایت فراخ دل اور مال دار شخصیت تھے۔ان سے بھی دوستوں کی چھیڑ چھاڑ چلتی رہتی۔ ایک دن کسی دوست نے کہہ دیا : ’’جوش صاحب ! مَیں تے سُنیا ایں تسی آپ نئیں لکھدے کسے نوں پیسے دے کے لکھواندے او؟‘‘ ایک موٹی سی گالی دے کے کہنے لگے: ’’جے مَیں کسے …کولوں لکھواندا تے ایہو جیہا ای لکھوانا سی!!!‘‘