سیاست دوستو ایک ایسا میدان ہے جس پر دوڑنے والے گھوڑے کبھی بھی سو فیصد دوستانہ مراسم پر نہیں دوڑ سکتے اور جہاں دوڑتے ہیں، اسے کچھ بھی کہا جا سکتا ہے، "سیاست" نہیں۔ پاکستان میں پچھلے 73 سال میں سیاست نے کئی نشیب و فراز دیکھے۔ جو کبھی بادشاہ "تخت نشیں" کی صورت دکھتے تھے، وہ اسمبلی کی شکل دیکھنے کو ترستے ہوئے بھی پائے گئے۔ اونچ نیچ زندگی کا حصہ اور سیاست کا ازلی مقدر ہوا کرتی ہے۔لیکن اگر پاکستان کی موجودہ صورتحال پر نظر دوڑائی جائے تو نتیجہ بدبودار سازشوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ایک دوسرے کی سیاسی رقابت میں اداروں کو داغدار کر ڈالنا کہاں کی عقلمندی ہے؟لیکن خیر عقلمندی اور دانشمندی کی توقعات انسان کو اہل دانش سے منسلک کرنی چاہئیں۔نہ کہ ان سے جنہیں مزار قائد کا تقدس پامال کرنا تو جرم نہ لگے لیکن اس جرم پر گرفتاری ظلم لگے۔ مزار قائد حفاظتی ایکٹ، 1976ء کے مطابق مزار قائد کے اندر یا اس سے 10 فٹ تک کی حدود میں بھی کسی بھی قسم کئی سیاسی سرگرمی میں ملوث پایا جانے والا شخص تین سال کی قید یا جرمانہ یا دونوں سزاؤں کا حقدار ہو گا۔سابق نااہل وزیراعظم نواز شریف کے داماد، ریٹائرڈ کیپٹن صفدر کو مزار قائد پر جا کر سیاسی ہلڑبازی کے مرتکب ہونے پر ،ہم نے ان کو شرمسار ہونے کی بجائے الٹا سینہ چوڑا کر کے اتراتے ہوئے دیکھا، جس کو مستنصر حسین تارڑ نے بہت خوبصورت انداز میں 19 اکتوبر، 2020 ء کو لکھے گئے اپنے خط میں کمال انداز میں بیان کیا ہے۔اس خط میں لکھا گیا ایک ایک لفظ گویا خونِ دل سے لکھا گیا ہے۔ گویا ایک بیٹا اپنے باپ کی لحد کی بیحرمتی پر بلبلا اٹھا ہو۔ قائد کا بیٹا ہونے کا حق جس عمدہ انداز میں تارڑ صاحب نے ادا کیا، کاش ہم بائیس کروڑ عوام بھی کر سکیں۔ یہ تو تھا ایک ناخوشگوار واقعہ۔ لیکن اس سے زیادہ ناخوشگوار بات یہ کہ صفدر کی گرفتاری پر جس بھونڈے طریقے سے اپوزیشن جماعتوں نے سیاست کھیلتے ہوئے قومی اداروں کی سالمیت پر حملہ کر دیا۔ جس مکروہ انداز میں آئی جی سندھ، مشتاق مہر کے اغوا کی بے سروپا کہانی کو خبر بنا کر بیچنے کی کوشش کی گئی اور اس کا الزام فوج پر لگا کر بھارت سے داد وصول کی گئی یہ ایک ایسا الزام جس میں خود آئی جی سندھ تک نے الزام لگانے والوں کا ساتھ نہ دیا۔ ورنہ کیا مشکل تھا سندھ پولیس کے سب سے بڑے افسر کے لئے کہ ایک FIR ہی کاٹ لیتے، اگر بنا ثبوت الزام تراشی کرنے والے سچے ہوتے۔بھارت کی دیرینہ خواہش کو کچھ اس انداز میں اپوزیشن جماعتوں نے پورا کیا کہ شائد اس کی توقع بھارت کو خود بھی نہ تھی۔سیکیورٹی کے حساس اداروں، بشمول پولیس، آئی بی، آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور رینجرز، کا پہلے دن سے یہ شیوہ رہا ہے کہ یہ سب مل کر قومی تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے ایک دوسرے کی بوقت ضرورت مشاورت سے چلتے ہیں۔ اس میں نہ کوئی مضائقہ ہے، نہ کسی کی عزت میں کمی آتی ہے اگر باہمی تعاون اور مشاورت سے چلا جائے۔اندرونی و بیرونی دشمنوں نے کچھ سیاستدانوں کی مدد سے ہمارے اداروں کو آپس میں لڑوانے کی سرتوڑ کوشش کی مگر بھلا ہو اس نجی ہوٹل کی CCTV فوٹیج سامنے لانے والوں کا، جہاں صفدر اور بیگم صفدر مقیم تھے، جس نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔ صفدر اعوان کی اہلیہ اور نواز شریف صاحب کی بیٹی، مریم نواز، (جو کہ والد صاحب کی تیمارداری کے لئے جیل سے ضمانت پر رہا ہیں) کا الزام تھا کہ میں جس ہوٹل میں مقیم تھی، اس کا دروازہ توڑ کر میرے شوہر کو گرفتار کیا گیا۔جیسے ہی ہوٹل کی ویڈیو سامنے آئی تو پتا چلا کہ نہ کوئی دروازہ ٹوٹا، نہ کوئی زور زبردستی ہوئی۔ خطرناک حد تک اطمینان سے صفدر صاحب ہلکی پھلکی نعرہ بازی کرتے پولیس کی گاڑی میں بیٹھے اور یوں ایک پروٹوکول سے بھرپور گرفتاری عمل میں لائی گئی۔جہاں اس ویڈیو سے مریم بی بی کا قومی اداروں کے خلاف جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا بے نقاب ہو گیا، وہیں ایک نیا پتہ کھیلا گیا اور دو روز بعد جیو نیوز کا رپورٹر، علی عمران، جس نے یہ ویڈیو منظر عام پر لا کر اپنا صحافتی فرض سرانجام دیا تھا، وہ گھر سے لاپتہ ہو گیا۔افسوس اور شرم کی بات یہ کہ اسے بھی فوج کے سر منڈھنے کی کوشش شروع کر دی گئی۔یہاں میں اپنے قارئین کے لئے تین سوال چھوڑے جانا چاہتی ہوں۔ • آخر کب تک ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف بنا ثبوت پروپیگنڈا چلا کر پوری قوم کی تضحیک ہوتی رہے گی؟ • جو دشمن باہر بیٹھا ہے، اس کوتو مات دے دی۔ جو دشمن ملک کے اندر گھات لگائے بیٹھا ہے، اس کا سدباب کون کرے گا؟ • غلط خبریں پھیلانے والوں کے خلاف حکومت کوئی کاروائی کرنا پسند کرے گی؟ یا اسی طرح خاموش تماشائی بن کر چمن کے مکمل طور پر اجڑنے کا انتظار کرے گی؟ فیصلہ عوام کا اور عوامی نمائندوں کا، جن کو عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے چنا جبکہ وہ جن کو عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے اقتدار سے باہر کیا، وہ آج پہلی مرتبہ مسترد کیے جانے پر چلا اٹھے "ووٹ کو عزت دو"۔حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان اور اس کے آئین کو عزت ملنے میں ہی ووٹ کی عزت پوشیدہ ہے۔ پاکستان زندہ باد!