جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں دھرنا بلکہ دھاوے کو 27اکتوبر سے تبدیل کرکے 31اکتوبر کردیا ہے۔ مگر قومی سیاست کے نباض جہاندیدہ مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی حکمت ِ عملی بلکہ چابکدستی دیکھیں کہ انہوں نے اپنے لانگ مارچ کے آغاز کی تاریخ 27اکتوبر ہی رکھی ہے اور وہ بھی اپنے آبائی شہر ڈیرہ اسماعیل خان یا سیاسی گڑھ پشاور سے نہیں کہ وہاں اُن کے بدترین مخالف کی حکومت ہے۔ مولانا آغاز کرنے جارہے ہیں اپنے اس لانگ مارچ کا سندھ کے دوسرے بڑے شہر سکھر سے جہاں اُن کے دیرینہ اتحادی مردِ حُر سابق صدر، چیئر مین پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کی حکومت ہے۔یوں حضرت مولانا اپنے لانگ مارچ کا پہلا راؤنڈ تو جیت ہی جائیں گے کہ سکھر کے اطراف میں اُن کے مسلک کے مدارس کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔جس سے ایک لاکھ سے اوپر سر پہ کفن باندھے طلبہ کے غول کے غول اپنے اساتذہ کی قیادت میں جب روانہ ہوں گے،تو پنجاب کے داخلی شہر صادق آباد تک یقینا یہ ایک ٹھاٹھے مارتے سمندرکا منظرنامہ ہوگا،کہ پی پی سندھ کے جیالے اگلی صف میں نہ بھی ہوئے تو شہروں شہروں سینکڑوں کی تعداد میں اُن کے سواگت کے لئے ضرور شریک ہوںگے۔ گذشتہ کالم میں لکھا تھا کہ دو ہفتے رہتے ہیں۔کئی خطر ناک اور خوبصورت موڑ آنے ہیں۔حضرت مولانا اور اُ ن کے پیرو کار کس منظم انداز میں اس لانگ مارچ کی تیاری کررہے ہیں، اس کا اندازہ ذرا جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی دفتر سے جاری کردہ ہدایت نامے سے لگا لیں۔مارچ کے شرکا ء کو بستر،دو جوڑے کپڑے ،خشک میوہ جات ،بھنے ہوئے چنے ،ایک عدد چھتری ،ہینڈ ٹارچ ،موبائل چارجر ،ایک عدد اضافی موبائل بیٹری اپنے ساتھ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جبکہ ہر ضلع کے مرکزی عہدیداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ راستوں میں رکاوٹیں دور کرنے کے لئے کرین، ایمبولینس ایک یا دو ڈاکٹر وں کے ساتھ مدارس کے طلبہ اپنے ساتھ درسی کتب اور قرآن کریم بھی ساتھ لائیں تاکہ اسباق و تلاوت میں وقفہ نہ آئے ۔ہدایت نامے میں یہ بھی تلقین کی گئی ہے کہ مارچ کے لئے روانہ ہونے سے قبل خواتین کودعاؤں اور روزوں کی تلقین بھی کریں ۔لانگ مارچ کی تیاری کیلئے جس طرح عرق ریزی کی گئی ہے اور اس کی پلاننگ میں جن جزئیات کا خیال رکھا گیا ہے ،مجھے یقین ہے کہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن کے روایتی مخالف خاص طور پر خان صاحب کا نوجوان سوشل میڈیا خوب خوب اپنے ٹوئٹروں میں مذاق اڑائے گا۔مگر یہ ہدایت نامہ محض یہیں تک محدود نہیں ،بلکہ اس میں شریک متوقع لاکھوں عوام کی شرکت اور ان کے ایک دو دن نہیں ہفتوں قیام و طعام کے پیش ِ نظر یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ کیوں کہ سندھ اور دیگر صوبوں کے مرکزی شہروں سے جب یہ لانگ مارچ شہروں ،شہروں ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچے گا، تو اس میں ہفتہ ایک تو لگ ہی جائے گا ۔ اس لئے ہر شہر کی ضلعی جماعت کے فرائض ِ منصبی میں یہ شامل ہو گا کہ اپنے مدرسے میں مہمانوں کی رہائش اور کھانے پینے کا بندوبست کیا جائے۔موبائل فون بند ہونے کی صورت میں وائی فائی اور لینڈ لائن کا بھی انتظام ہو۔حضرت مولانا کے مارچ کا مذاق اڑانے والے سرکاری ارکان اور میڈیا کو خبر ہو کہ اس مارچ کی جو مہینوں سے تیاری ہورہی ہے،اُس میں شرکاء کو یہ تک ہدایت دی گئی ہے کہ جس گاڑی،بس یا ٹرک میں وہ آئیں گے وہ یکطرفہ ہوگی۔تاہم ڈرائیور کا نمبر بھی ساتھ رکھیں ،ساتھ ہی شرکا ء کی ضلعی ناظم ویڈیو بنا کر ضرور رکھے گا تاکہ اگر اُسے اغوا یا گرفتار کیا جائے توضلعی جماعت کے پاس اس کا ریکارڈ ہو۔یقین کریں،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی دشت نوردی میں چار دہائی سے اوپر تو ہوگئے۔ساٹھ کی دہائی میں ایوبی آمریت کے خلا ف چلنے والی طلبہ تحریک میں تو خود ’’پتھر ‘‘مارنے والوں میں سے تھے۔ 1977ء میں قومی اتحاد کی تحریک کے آتے آتے کارکن صحافی کی حیثیت سے کوریج بھی کی۔ 1983ء کی ایم آر ڈی کی تحریک تک تو ایک رسالے کے مدیر بن چکے تھے۔اورپھر ’’مشرف ہٹاؤ‘‘کالے کوٹو ں کی تحریک اور اپنے کپتان کے مشہورِ زمانہ دھرنے میں تو ہفتوں ،شہروں شہروں LIVEآواز لگائی ۔ان ساری تحریکوں کو انتہائی قریب سے دیکھا۔ مگر اتنی تفصیل سے، خدا جھوٹ نہ بلوائے،اس پیمانے کی تیاریاں کسی لانگ مارچ یا دھرنے کی نہ پہلے سنیں اور نہ ہی کیمرے کی آنکھ سے دیکھیں۔ اسلام آباد میںتحریک انصاف کی حکومت کے وزراء اور مشیران ِ کرام اور بنی گالہ کے کھڑپینچ جو ’’حضرت ‘‘مولانا کے لانگ مارچ کے حوالے سے اُن کی ذاتیات پراترآئے ہیں،اُس کا ایک سبب وہ ’’نشہ‘‘ بھی ہے جو بدقسمتی سے اقتدار میں آنے کے بعد اسلام آباد کے تخت پر بیٹھنے والوں کے سرچڑھ کر بولتا ہے۔ پاکستانی سیاست کے طاقت ور ترین ،سحر انگیز سیاست دان،بانی ِ پی پی پی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک کا تو عینی شاہد ہوں۔پرائیویٹ چینل تو تھے نہیں، سرکاری میڈیا قومی اتحاد کی تحریک کے خلاف دن رات زہر اگلتا رہتاتھا۔پرنٹ پر سخت سنسر شپ تھا۔پی پی کے وزیر اعظم اور ا ن کے وزرائے کرام ،مشیران ِ کرام کی زبان بھی پی ٹی آئی کی قیاد ت سے مختلف نہیں تھی۔جس وقت دھاندلی زدہ پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں وزیر اعظم کی حیثیت سے یہ دعویٰ کررہے تھے کہ ان کی کرسی مضبوط ہے۔اُس وقت سارے ملک کے شہروں کی سڑکوں پر بھٹو مخالفوں کا راج تھا۔اور اُن میں بھی اکثریت مولوی صاحبان اور مدارس کے طلبہ کی تھی۔مارچ1977ء میں بھٹو صاحب کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک اور پھر جولائی 1977ء میں بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹنے اور ان کے پھانسی چڑھنے پر درجنوں نہیںسینکڑوں کتابیں آچکی ہیں۔جیل کی کال کوٹھری میں بھٹو صاحب نے کتاب If I am Assassinatedلکھی تھی۔اُس میں انتہائی تفصیل سے لکھا تھا کہ ’’ریچھ اور بھیڑئیے‘‘دونوں اُن کے خون کے پیاسے ہیں۔بہرحال یہ تو اپنی جگہ حقیقت ہے ہی کہ لاہو ر کے گورنر ہاؤس میں اُس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے انہیں ایٹم بم بنانے کی مہم جوئی روکنے کے لیے کھُلے عام دھمکی دی تھی کہ اس صورت میں انہیں ’’ایک عبرت ناک مثال‘‘ بنادیا جائے گا۔ بھٹو صاحب طاقت ور غیر ملکی رہنماؤں کے سامنے دوٹوک اور دوبدو موقف اختیار کرتے تھے ۔مگر اُس دن بھٹو صاحب نے جواب میں جو کہا اُس سے صاف لگ رہا تھا کہ عالمی تاریخ کا نباض سپر پاور امریکہ کے سب سے طاقتور وزیر خارجہ کی اس دھمکی سے وہ پیغام پڑھ چکا ہے، جس کا اُسے بعد کے دنوں میں سامنا کرنا پڑا۔ (جاری ہے)