ڈیرہ غازی خان کے 52فیصد رقبے پر پنجاب حکومت کا کنٹرول ہے نہ وہاں پولیس کی عملداری ہے‘یہ لغاری‘ کھوسہ‘ بزدار‘ گورچانی اور لونڈ قبائلی سرداروں کا علاقہ ہے۔ یہاں وہ قانون ہے جو سردار کی زبان سے حکم بن کر نکلے۔ جنوبی پنجاب کی معاشی اور سماجی پسماندگی اس علاقے میں نچلی ترین سطح پر ہے۔ آج بھی بہت سے لوگ بغیر جوتے کے چلتے ہیں‘ سڑکوں‘ صاف پانی‘ ٹرانسپورٹ‘ ہسپتال ‘ تعلیمی اداروں‘ تفریحی سہولیات کا یہاں گزر نہیں۔ لوگ ریاست پاکستان کی بجائے سردار کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں۔ یہاں دھوپ بے سائباں لوگوں پر ٹھہر گئی ہے۔ یہاں امن و امان برقرار رکھنے کا کام بارڈر ملٹری پولیس کرتی ہے۔ ہر سردار اپنے علاقے کے ان لوگوں کو بارڈر ملٹری پولیس میں بھرتی کرواتا ہے جو اس کے وفادار ہوتے ہیں۔ اس طرح بارڈر ملٹری پولیس کے اہلکار تنخواہ سرکاری خزانے سے پاتے ہیں لیکن حکم اپنے سردار کا مانتے ہیں۔ سردار جسے قصور وار قرار دے اسے حراست میں لے لیا جاتا ہے‘ جس سے سردار ناراض ہو کر اس کو جسمانی سزا دی جاتی ہے۔ کوئی قتل ہو جائے‘ کسی کی عزت پامال ہو جائے‘ کسی کا مال ہتھیا لیا جائے‘ کسی کی فصل اجاڑ دی جائے‘ کسی نے نیا کاروبار کرنا ہو‘ بعض اوقات رشتہ کرنا ہو،سردار کی سرپرستی اور رضا مندی کے بنا یہ سب نہیں ہو سکتا۔ بارڈر ملٹری پولیس پولیٹیکل ایجنٹ کو جوابدہ ہوتی ہے اور یہ پولیٹیکل ایجنٹ ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔ عملی طور پر وہ سرداری نظام کا سہولت کار ہوتا ہے۔ وہ ریاست کے قوانین اور سردار کی خواہش کو ملا کر اپنے فرائض انجام دیتا ہے۔ سرداری نظام کے جبر کا شکار لوگ جب ریاست اور سردار کو اتحادی کے طور پر دیکھتے ہیں تو ان میں سے کچھ باغی ہو جاتے ہیں۔ وہ ڈاکو بن جاتے ہیں یا پھر کالعدم شدت پسند تنظیموں کا حصہ بن کر ریاست اور سردار کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ محمد لادی نامی شخص نے 2008 میںاپنے گروہ کی بنیاد رکھی۔لادی جیانی قوم کی ایک شاخ ہے اور جیانی قوم سیمنٹ فیکٹری کے قریبی پہاڑی سلسلے میں آباد ہے۔ اصل مسئلے کی جڑ سیمنٹ فیکٹری ہے۔فیکٹری کے قیام کی بنیادی شرائط میں ہے کہ اس کی انتظامیہ مقامی بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرے گی۔ لوگوں کی آمدو رفت کیلئے راستے تعمیر کرے گی۔ علاقے میں پینے کا صاف پانی مہیا کرے گی۔ اہل علاقہ کو ملازمت اور بجلی دے گی۔ فیکٹری انتظامیہ کا مسئلہ سردار ہیں۔اکثر ٹھیکے سرداروں کے پاس ہیں۔جس کی وجہ سے اگر فیکٹری کچھ دیتی بھی ہے تو وہ کھوسہ سرداروں کی جیب میں جاتاہے۔ ایک دوست بتاتے ہیں کہ جب لادی گینگ کے بانی محمدلادی نے سرداروں سے اہل علاقہ کو فیکٹری میں نوکری دینے کا مطالبہ کیا تو سرداروں نے اس پر ناجائز مقدمات بنوا دئیے۔ محمد لادی کے بیٹوں بھائیوں بھتیجوں پر بھی مقدمات بن گئے۔ یہ لوگ شہروں کا رخ کرتے تو پولیس ان کا پیچھا کرتی۔تنگ آکر ان لوگوں نے مسلح ہوکرمیدانی علاقوں کا رخ کرلیا، ڈکیتیاں بھی شروع کر دیں۔ اس علاقے میں جب کبھی پولیس کی تعیناتی اور تھانے قائم کرنے کی بات ہوئی۔ لغاری‘ کھوسے‘ بزدار‘ گورچانی اور لونڈ سردار مخالفت میں اتر آئے۔ صوبائی اسمبلی‘ قومی اسمبلی اور سینٹ تک میں نمائندگی رکھنے والے یہ سردار ہر حکومت میں وزارت پاتے ہیں۔ موجودہ حکومت میں بھی ان میں سے کئی ایک اہم عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ یہ پارلیمنٹ میں اپنے علاقے کی محرومیوں کا رونا روتے ہیں‘ فنڈز کی کمی کا نوحہ کہتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں گیس‘ پانی‘ سڑکیں‘ ہسپتال ،کاروباراور سکول نہیں۔ کچھ تو اس وجہ سے بہت بلند مرتبہ پا لیتے ہیں کہ ایک سردار ہوتے ہوئے اور کئی بار رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہونے کے باوجود وہ اپنے علاقے کو بجلی فراہم نہ کر سکے۔ عجیب بات ہے وزیر اعظم عمران خان اس کوالیفیکشن کے مداح ہیں۔ لادی گینگ نے ظلم کیا‘ متعدد افراد کو اغوا کیا اور دو کو بے رحمی سے قتل کیا۔ ایک کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سوشل میڈیا پر ویڈیو نشر کر دی تاکہ گینگ کی مخبری پر دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔ قبائلی جبر پر استوار سرداری نظام کے خلاف آواز اٹھانے والے جب ڈاکو یا دہشت گرد بنتے ہیں تو ان کے پاس اعلیٰ ہتھیار آ جاتے ہیں‘ لوٹ مار کی رقم آنے لگتی ہے۔ ایک نئی قسم کی آزادی اور طاقت کا احساس ایسے باغی افراد کومزید اتھرا بنا دیتا ہے ۔وزیر اعظم لیہ گئے تو انہوں نے علاقے میں ڈاکوئوں سے سہمے لوگوں کی درخواست پر علاقے میں رینجرز اور پولیس کی مدد سے آپریشن کی ہدایت کی۔آپریشن شروع ہوا اور پہلے دن متعدد ڈاکو مارے گئے۔ کسی نے پنجابی فلم ملنگی دیکھی ہو تو جان لے گا کہ جاگیردار اپنے مخالفین کے نام ڈاکوئوں کی فہرست میںکیسے شامل کرواتے ہیں۔ وہ خاندان جو ان سرداروں کے سیاسی تسلط کو چیلنج کرتے ہیں مستقل خطرے میں رہتے ہیں۔ لادی گینگ کے دس مسلح لوگوں نے صبح ساڑھے دس بجے خیر محمد کے گھر پر حملہ کیا۔ خیر محمد ‘ رمضان اور خادم نے جوابی فائرنگ کی لیکن آخر قابو میں آ گئے۔ خیر محمد عرف خیرو موقع پر مارا گیا جبکہ باقی دو کو ڈاکو اٹھا کر لے گئے۔ جہاں ان کو قتل کر دیا گیا۔ یہ لوگ پہلے لادی گینگ کا حصہ تھے لیکن سرداروں نے لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ سرکاری افسران 2002ء سے کئی بار اس علاقے کو پنجاب کے دوسرے بندوبستی ایریا میں شامل کرنے کی سفارش کرتے رہے ہیں‘ پولیس کی طرف سے بھی ڈی جی خان کے اس 52فیصد علاقے کو پولیس کی نگرانی میں دینے کی تجویز دی گئی لیکن اب تک ایسا نہ ہو سکا۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے سردار یہاں ریاست کی عملداری کیوں نہیں چاہتے؟ وہ اپنی بادشاہت بچانے کے لئے علاقے میں محرومیوں اور پسماندگی کی فصل کیوں کاشت کر رہے ہیں۔لوگوں کو ڈاکو کیوں بنا رہے ہیں؟