اسلام آباد (غلام نبی یوسفزئی)عدالت کی سفارش پر لارجر بینچ کی تشکیل کے حوالے سے چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیار کے بارے میں سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آبزرویشن دی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے بینچ کی طرف سے لارجربینچ کی تشکیل دینے کے جوڈیشل حکم پر چیف جسٹس کے پاس صوابدیدی اختیارات نہیں رہتے بلکہ چیف جسٹس عدالتی حکم کے پابند ہیں اورایسی صورت میں چیف جسٹس کے اختیارات محدود ہوجاتے ہیں جبکہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اس آبزرویشن سے جسٹس منیب اختر نے اختلاف کیا اور کہا ہے کہ چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات محدود نہیں ہوتے ۔ یہ آبزرویشن فاضل جج نے ایلیٹ فورس خیبر پختونخوا کے کمانڈنٹ کی جانب سے دائر اپیل کے فیصلے میں اپنے الگ نوٹ میں دی ہے ۔ فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے جاری کیا ہے بینچ کے دیگر ممبران میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں، عدالت نے اپیل منظور کرتے ہوئے دونوں فریقین کی مشاورت سے معاملہ کی دوبارہ انکوائری کا حکم دیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ 2 ماہ میں انکوائری مکمل کی جائے ، تاہم3 رکنی بینچ کے رکن فاضل جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الگ نوٹ لکھتے ہوئے قراردیا ہے کہ ان کی مودبانہ رائے کے مطابق جب عدالت عظمیٰ جوڈیشل آرڈر کے ذریعے کسی قانونی نقطہ کی تشریح کیلئے لارجربینچ کی تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا ئے تو چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات نہیں رہتے ،ایسی صورتحال میں چیف جسٹس کے اختیارات محدود ہوجاتے ہیں۔ فاضل جج نے حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’شفقت بنام ریاست کیس ‘‘میں فیصلہ دینے والے بینچ نے لکھا تھا کہ ’’ہم یہ کیس چیف جسٹس کو لارجر بینچ کی تشکیل کیلئے ریفر کررہے ہیں‘‘۔ فاضل جج نے لکھا کہ انہوں نے سیکرٹری کے ذریعے پتہ کرایا تو معلوم ہوا کہ بینچ کی آبزرویشن سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو بھجوائی گئی تھی لیکن انہوں نے لارجربینچ تشکیل دینے سے انکار کردیا تھا۔ اسی بینچ کے فاضل رکن جسٹس منیب اختر نے اپنے الگ نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آبزرویشن سے اتفاق نہیں کیا اورجسٹس گلزار احمد کے ایک فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ لارجر بینچ کی تشکیل چیف جسٹس کی صوابدید ہے اور چیف جسٹس کی پوزیشن کم نہیں ہوگی۔فاضل جج نے کہا کہ ان کی رائے کے مطابق یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ چیف جسٹس ’’ماسٹرآف روسٹر‘‘ ہیں اور انکی اس پوزیشن کو متاثر کیا جاسکتااور نہ ہی انہیں پابند کیا جاسکتاہے ۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ان کی سمجھ کے مطابق یہی قانون پوزیشن ہے ۔ یاد رہے کہ اس کیس کی سماعت 28فروری2019ء کو ہوئی تھی اور فیصلہ سنایا گیا تھا تاہم تحریری فیصلہ اب جاری کیا گیا ہے ۔