مکہ کے نوجوانوں میں وہ سب سے حسین تھے۔ والدہ خناس بنت مالک کا تعلق مکہ کی اشرافیہ سے تھا۔دولت گھر کی باندی تھی۔پسر خوش جمال کو اس نعم سے پالا کہ دیکھنے والی آنکھیں خیرہ ہوجاتیں۔یہ جوان خوش خصال کہ جس کا ذوق بھی نہایت عمدہ تھا دو دو سو درہم کے لباس دن میں کئی کئی بار تبدیل کیا کرتا۔پیروں میں زریں حضرمی جوتی ہو ا کرتی جو صرف امرا کے لئے مخصوص تھی اور وہ بھی خاص مجلسوں میں پہنی جاتی، وہ روزمرہ پہن کر مکے کی پتھریلی گلیوں میں یونہی خوش وقتی کیا کرتا۔ بیش قیمت پوشاک میں ملبوس ،قیمتی خوشبووں میں بسا سیم تن مکے کی گلیوں میں بے فکر گھوما کرتااور کتنے ہی دلوں پہ ان کے قدموں سے آتشیں لکیریں کھنچ جاتیں۔ جس گلی سے گزرتا، معطر ہوجاتی اور کہنے والے کہہ اٹھتے ہو نہ ہو یہاں سے اسی خوش خصال کا گزر ہوا ہے۔صرف صورت ہی پہ کیا موقوف ، سیرت بھی بے مثال پائی تھی۔ گفتگو کا وہ سلیقہ کہ وہ کہے اور سننے والے سیر نہ ہوں۔جس محفل میں بیٹھے سماعتیں اور بصارتیں اسی کا طواف کریں۔ایسا نرم گو اور شیریں بیان کہ سننے والا گرویدہ ہوجائے۔ بدن ہی نہیں دل بھی شفاف اور بے داغ۔تبھی تو ہدایت کا نور اترا اور اندرون روشن ہوگیا۔جیسے زیتون کے تیل میں لپٹا فتیلہ جسے بس چنگاری دکھانے کی دیر ہو۔ایسے خوش رو اور دلربا کہ وجہ حسن کائنات رسول کریم محمد ﷺ انہیں دیکھتے تو فرماتے:مکے میں مصعب سے زیادہ حسین و خوش پوشاک کوئی نہیں ہے۔ یہ مصعب بن عمیر تھے ۔انقلا ب طرز حیات کی جاوداں و اولین مثال۔ جس دن دل میں وہ نور اترا جس کے لئے ان کا دل منتخب کرلیا گیا تھا۔محبت کرنے اور سراہنے والی آنکھیں ماتھے پہ چڑھ آئیں۔ جان چھڑکنے والی ماں نے قید تنہائی کے حوالے کردیا۔وہ مصعب بن عمیر جس کے دسترخوان پہ جب تک انواع و اقسام کے کھانے نہ ہوتے وہ لقمہ نہ توڑتے،فاقوں پہ مجبور کردیئے گئے۔عطر بیز ملبوسات چھوٹے۔نشاط افزا عطریات نے منہ پھیر لیا۔ ایسے میں جو دل توحید پہ پختہ ہوگیا تھا اسے بس یہ فکر تھی کہ وہ اس قید سے چھوٹے اور اس پیام حق کو ان تک پہنچائے جو اس سے محروم تھے۔رسول اللہ ﷺ کے حکم پہ حبشہ ہجرت کی اور اپنے وطن میں شہزادوں سی زندگی گزارنے والے مصعب بن عمیر غریب الوطنی کے مصائب و آلام اٹھانے پہ مجبور ہوگئے۔زبان پہ لیکن نہ اپنے گزرے عیش و عشرت کاشکوہ تھا نہ دل میں کوئی حسرت۔ فکر تھی تو بس یہ کہ پیغام الہیہ پھیلانے میں رسول کے ممد ومعاون بن جائیں۔ حبشہ سے مکہ واپسی کا ارادہ کیا۔ دل گرفتہ ماں یہ خبر سن کر بے تاب ہوگئی ۔پیغام بھجوایا ۔ اس شہر میں آؤگے جہاں ماں رہتی ہے اور تو اس سے ملنے نہ آئے گا؟نہایت بے نیازی سے جواب بھجوایا:ـ ـ رسول اللہ سے پہلے کسی سے ملنے نہیں جاؤں گا۔نگاہیں تو دیدار محبوب سے سیراب ہوتی ہیں۔مکہ تشریف لائے تو بارگاہ رسالت میں حاضری دی۔مکہ کا شہزادہ اس حال میں ملا کہ سرور عالم ﷺ کی آنکھوں سے اشک رواں ہوگئے۔سارے جسم کو ایک ٹاٹ نے بمشکل ڈھانپ رکھا تھا۔ صحابہ انہیں اس حال میں نہ دیکھ سکے اور سر جھکا لیا۔ آپﷺ نے فرمایا:الحمد للہ۔اب اہل دنیا کی حالت بدل جانی چاہئے۔یہ وہ نوجوان ہے ، اہل مکہ میں جس سے زیادہ ناز پروردہ کوئی نہ تھا۔لیکن خدا اور اس کے رسول کی محبت نے اس کو ناز ونعم سے بے نیاز کردیا ہے۔۔سیدنا علی کرم اللہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ مصعب اس حال میں آئے کہ دنبے کی کھال اوڑھ رکھی تھی جو بمشکل ان کا ستر ڈھانپتی تھی۔صحابہ کی آہیں نکل گئیں۔رسول پاک کی آنکھیں بھیگ گئیں۔فرمایا:ذرا اس آدمی کو دیکھو جو دو سو درہم کا لباس پہنا کرتا تھا۔ اللہ اور اس کے رسول کی محبت نے اس کا یہ حال کردیا۔مصعب بن عمیر کو بد ر و احد کا علم بردار ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ احد کے میدان میں یہی وہ صحابی تھے جو رسول اللہ کا محاصرہ کئے ابی بن خلف کے وار اپنی تلوار پہ روکتے رہے۔ غزوہ احد میں ہی رسول اللہ ﷺ سے مشابہت کے باعث ابن قئمہ انہیں رسول اللہ سمجھ کر ان پہ حملہ آور ہوا اور ان کے دائیں ہاتھ پہ وار کیا تاکہ علم اسلام کو سرنگوں کر سکے۔ آپ نے کٹے ہوئے بازو سے علم بائیں ہاتھ میں تھام لیا۔بایاں بازو بھی شہید ہوگیا تو علم کو کٹے ہوئے بازووں سے سینے کے ساتھ لگالیا۔ اس وقت لبوں پہ یہ آیات جاری تھیں: ’’محمد(ﷺ) صرف اللہ کے رسول ہی تو ہیں، آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں،اگر وہ فوت ہو جائیں یا شہید کر دیے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں پر (دین سے) پھر جاو گے۔‘‘ ان آیات نے گویا حق و باطل میں وہ فرق واضح کردیا جسے احد کے میدان میں ہی سمجھا اور سمجھایا جاسکتا تھا جب اللہ کا رسو ل دشمن کی براہ راست زد میں تھا۔اب کی بار ظالم ابن قئمہ نے شاید مشتعل ہوکر نیزے سے وار کیا۔ نیزے کی انی مصعب بن عمیر کے سینے کے پار ہوگئی۔وہ زمین پہ گرے لیکن ان کے گرنے سے قبل علم حق سیدنا علی کرم اللہ وجہ نے سنبھال لیا۔ وفا کے چراغ ایسے ہی جلتے ہیں۔پرچم بہ پرچم،دست بہ دست،رو بہ رو۔معرکہ احد تمام ہوا۔جب شہیدوں کو کفنانے کی باری آئی تو ناز ملبوس، عطر نفس مصعب بن عمیر کو جس چادر سے ڈھانپا گیا وہ اس بے بازو جسد مبارک کو بھی پوری نہ پڑ سکی۔ سر ڈھانپتے تو پاوں کھل جاتے،پاوں چھپاتے تو سر مبارک عیاں ہوجاتا۔ رسول اللہ مصعب بن عمیر کے نعش پاک کے پاس تشریف لائے۔خاتم رسالت کی آنکھوں سے ایک بار پھر اشک رواں ہوگئے۔پہلے یہ آیت تلاوت فرمائی:اہل ایمان میں سے چند ایسے ہیں جنہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا اسے سچ کردکھایا۔ پھر اپنے محبوب سے مخاطب ہوئے:مصعب۔ میں نے تمہیں مکہ میں دیکھا تھا کہ تم سے زیادہ خوش لباس کوئی نہ تھا اور تم سے زیادہ خوبصورت بال کسی کے نہیں تھے۔ آج دیکھتا ہوں کہ تمہارے بال الجھے ہوئے ہیں اور تمہارے بدن پہ ایک چادر کے سوا کچھ نہیں ہے۔ میں اللہ کا رسول ﷺ گواہی دیتا ہوں کہ تم قیامت کے دن بارگاہ الہی میں مقرب ہوگیـ۔پھرصحابہ کرام کو حکم دیا کہ مصعب کے سر کو چادر سے ڈھانپ دو اور پیرو ں کو گھاس سے ڈھانپ دو۔ مکہ کے شہزادے کو اسی طرح کفنایا اور دفنایا گیا۔ آج دنیا بھر کے موٹیویشنل اسپیکرز آپ کو اور آپ کی اولاد کو بھاری معاوضے پہ گر سکھاتے ہیں کہ کیسے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دنیا کمائی جاسکتی ہے،کیسے دولت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے اور کیسے اپنا لائف اسٹائل بدلا جاسکتا ہے ؟ایسے میں مصعب بن عمیرؓ کون شخص تھا جس نے دنیا کی حقیقت کو ایک لمحے میں سمجھ لیا۔اسے بخوشی اللہ کے محبوب کی ایک نگاہ پہ قربان کردیا اور اس کے بدلے میں ہمیشہ رہنے والی نعمت خرید لی اور ایک لمحے کو بھی اسے ملال تک نہ ہوا۔