بلالؓ اس محبت کے حوالے سے یاد کیے جاتے ہیں جو لوگ ان کے لیے محسوس کرتے ہیں، لیکن اسی حوالے سے ،کہ بلالؓ سے لوگوں نے اتنی محبت کی اور لوگوں کے جذبات میں اس طرح رسے بسے رہے، یہ بھی ہوا کہ کم لوگوں نے ان زندگی کے بارے میں کچھ زیادہ لکھنے کی ضرورت محسوس کی، لوگوں کے لیے بس اتنا ہی بتانا کافی تھا کہ بلالؓ ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہتے تھے اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ ان سے محبت کرتے تھے، اس تاریخی لمحے کی چند تصاویر میں ، جو ہمیشہ عام طور پر مسودوں کی تزئین کے لیے نگاہ واپسیں کی حیثیت رکھتی ہیں،بلالؓ کو آسانی سے پہچانا جاسکتا ہے …بلالؓ سیاہ فام تھے۔ بلالؓ کے بارے میں چند گنے چنے واقعات کو تیزی سے دہرایا جاسکتا ہے۔ وہ مکہ میں پیدا ہوئے ، ایک حبشی غلام رباح کے بیٹے تھے، بت پرستوں کے شہر میں خدائے واحد پر ایمان لانے کی پاداش میں ان پر تشدد کیا گیا ، محمد ﷺ کے قریبی دوست حضرت ابوبکر ؓ نے انہیں خرید کر غلامی سے آزاد کرلیا۔ انہیں اسلام میں عبادت کے لیے بلانے والا پہلا مؤذن مقرر کیا گیا، اسلام کی اولین مختصر افواج کے لیے رسد کی فراہمی کی ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی، وہ رسول اللہ ﷺ سے اتنے قریب کہ صبح کے وقت آپﷺ کو جگانے کا فریضہ ان کے ذمے تھا،حضرت محمد ﷺ کی رحلت کے بعد رنج والم کے باعث بلالؓ کے پیر جواب دے گئے، وہ اب زینوں پر چڑھ کر اذان دینے کے قابل نہ رہے، ان کا انتقال غالباً 644ء میںحضرت محمد ﷺ کی رحلت کے 12سال بعد شام میں ہوا۔ یہ مواد کسی کی زندگی کے تذکرے کے لیے کافی نہیںہے ۔گو بلالؓ کے ایمان لانے کے بعد سے محمد ﷺ کی زندگی کا ہر واقعہ بلالؓ کی زندگی کا واقعہ بھی تھا، علاوہ ازیں ان کی یاد کے دو ستون ، ایک وہ محبت جو اپنے جانے والوں سے انہیں ملی، دوم رسول پاکﷺ سے قربت۔یہی دونوں ایسے مصنف کے لیے کافی ہیں جو پہلی میں حصہ وار اور دوسری سے حیرت زدہ ہو۔ امریکہ کے سیاہ فام مسلمانوں نے اپنا نام ’’بلال ‘‘ہی رکھ لیا ہے اور عیسائیوں کی اصطلاح میں وہ مسلم افریقہ کے ‘‘سرپرست ولی‘‘ ہیں، حضرت محمد ﷺ نے بلال ؓ کو اہل جنت کہا ہے۔ حکایت غلامی…بلالؓ کی زبانی میں …بلال ؓ …غلاموں کی اولاد …بحیثیت غلام پیدا ہوا اور اس وقت تک غلام ہی رہا ، جب تک کہ میرے مالک تاجر امیہ نے میری زندگی کو ختم کردینے کا فیصلہ نہیں کرلیا۔ آزاد فرد کے مقابلے میں کسی غلام کی زندگی میں افتاد کم ہی پڑتی ہے مگر جب پڑتی ہے تو پڑتی ہے…پیٹھ پر تازیانے کی …کہ غلام شخص محض کھال ہوتا ہے ، لیکن اب میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور یہاں دمشق میں مجھے امیہ کے ہاتھوں یا اس کے درد سر یا اس کی شراب کی بوتل کی بدمستیوں کے نسبت اپنے دروازے کے گلاب کے کانٹوں سے زیادہ خطرہ ہے، غلام کبھی کچھ جانتا نہیں وہ محض اندازہ کرسکتا ہے، مالک کی آواز جیسی کوئی آواز نہیں ہوتی۔ وہ پکارے تو اس کی آواز کی پہنچ سے بچا نہیں جاسکتا، اگر غلام دو مقامات پر نہیں ہے ، مالک کی آنکھوں کے سامنے یا اس کی چیخوں کی پہنچ کے حدود میں ، تو مطلب یہ ہے کہ وہ بھاگ نکلا ہے، مالک اسے خرید لیتا ہے اور وہ اپنی باقی ماندہ زندگی سے اپنی قیمت چکاتا رہتا ہے۔مرنے والوں کے بارے میں استہزاء میرا شیوہ نہیں، لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کہ جب امیہ نے مجھے بازار سے خریدا تو اسے اپنی ادا کردہ قیمت سے زیادہ ہی ملا۔ میں ہمیشہ صبح کی آرزو کرتا تھا جب اپنے غلام ساتھیوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر چپکے چپکے گپ شپ کرتے ہوئے اپنے مالکوں کو دیکھتے اور ان کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے تیار رہتے، سایہ ہمارے لیے دل کشی کا باعث تھا مگر مکہ میں سایہ ایسے ہی ہے جیسے پھیپھڑوں میں سانس۔ اس لیے کہ مکہ میں کچھ اگتا ہی نہیں، نہ درخت نہ گھاس ، نہ پھول، اور شہر کے اطراف کی پتھریلی پہاڑیاں دوپہر کے سورج کی شگافتہ کرنے والی تمازت کو رات گئے تک سمیٹے رہتی ہیں، فطرت کی سخت گیریوں کے اعتبار سے مکہ دنیا کے بے رحم شہروں میں سے ہے۔ تاہم ان دنوں میں بھی وہ لوگ جو واقف مکہ تھے اسے خارج از ذہن نہیں کرسکتے تھے، وہاں سے نکل کر وہ واپسی کے لیے بے چین رہتے تھے، کوئی نخلستان یا معتدل مقام انہیں سکون نہ دیتا۔یہاں تک کہ میں ،ایک غلام ، مکہ میں نیلام شدہ، جس کی چٹکیاں بھری جاتیں، دائروں میں دوڑایا جاتا اور میخیں چبھوئی جاتیں، تاکہ میری قوت کا اندا زہ ہوسکے، میں بھی رفتہ رفتہ اپنی اس ایذارساں جگہ سے پیار کرنے لگا۔ میں آپ کو یہ بتادوں کہ چاندی کے پیالے کے اس پانی کا ، دمشق میں بہتے ہوئے اس ٹھنڈے پانی کا، صحن کعبہ میں بہنے والے زمزم کے پانی سے ، جس کا ایک خاص گندھکی ذائقہ ہے، کوئی مقابلہ نہیں، حالانکہ میں وہ پانی صرف چلّو میں ہی پیتا تھا۔ کعبہ کے گرد ونواح میں کوئی شخص تلوار نہیں کھینچتا ، اپنے دشمن پر ہاتھ نہ اٹھاتا ، اور ہر شخص لڑائی ، جنگ وجدل ، بدنظمی اور لوٹ کھسوٹ سے پرہیز کرتا ۔ نسلِ انسانی کی پہلی عبادت گاہ کعبہ اسماعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام کے باپ ابراہیم علیہ السلام نے بنائی جو محض خدائے واحد کی عبادت کرتے تھے، لیکن انسانی ذہن کی بے راہ روی کے باعث یہ عظیم متبرک جگہ لکڑی اور پتھر کے تراشے ہوئے بتوں کا گودام بن گئی، یہ عربوں کے خداوند تھے، دن کے خدا اور ، رات کے خدا اور، سالم پیروں کے اور لنگڑے پیروں کے خدا ، مقدر کے خدا اور سفر کے خدا، کل تین سو ساٹھ مختلف النوع خدا تھے، اور سارے کے سارے منفعت بخش ، یہ نفع سچا مذہبی نفع نہیں تھا جو جنت میںملتا ہے اور دائمی ہوتا ہے بلکہ کارواں کا نفع جو بازار میں ملتا ہے اور گرم پتھر پر گرے ہوئے تھوک کی طرح آتا اور جاتا ہے ۔ ہر برس ایک مقررہ مہینے عرب کے قبائل کعبہ میں اپنے خداؤں کی زیارت کے لیے آتے تھے، اس موقع پر ایک بازار لگ جاتا تھا، جس میں شام کے تاجر ، یمن کے بحری اور فارس کے ریگستانی تاجر اور ہر چہار جانب سے آنے والے غلاموں کے تاجر سب جمع ہوجاتے تھے، دیوتا اور سونا دونوں ہی برابر کے سامان تجارت ، میں آپ کو یہ سب اس لیے بتارہا ہوں کہ اپنی کہانی کو اس کے اصل مقام پر رکھوں یعنی اس جگہ جہاں میں کعبہ کے سایے میں بیٹھتا تھا۔ ’’دیکھو، وہ شخص جارہا ہے جو خدا سے باتیں کرتا ہے‘‘یہ ابوجہل کی آواز تھی، اور پیشتر اس کے یہ فقرہ قہقہوں میں ڈوب جائے اس کا غلام جو میرے پاس بیٹھا تھا اچھل کر پیروں پر کھڑا ہوگیا اور پھر دوبارہ آرام سے بیٹھ گیا۔ ’’رسول اللہ ﷺ ! آپ پانی پر کیوں نہیں چلتے‘‘ اب امیہ میرے مالک کی باری تھی جو اب خود جہنم میں جوابدہ ہے، تب میں نے آپؐ کو گزرتے ہوئے دیکھا ، محمد ﷺ ابن عبداللہ کو حسبِ معمول تنہا گزرتے ہوئے ، آپ ﷺکا رخ اس پہاڑ کی طرف تھا جہاں لوگوں کی سرگوشیوں کے مطابق ایک فرشتہ آپ ﷺ سے ہم کلام ہوا تھا، کعبہ کے آس پاس آپ ﷺ نظروں سے اوجھل ہوگئے، پیچھے کی تیز وتند ہوا آپؐ کو اڑالے گئی…یوں کہیے کہ مذاق اڑانے والے ہمارے مالکوں کو یہی لگتا تھا۔ ایچ اے ایل کریگ (H,A,L, CRAIG) کی انگریزی کتاب حضرت بلالؓ سے ماخوذ اقتباس ہے، اس کتاب کا اردو ترجمہ سجاد باقر رضوی صاحب نے 2012ء میں کیا ۔