معزز قارئین!۔ 26 جون کو مختلف نیوز چینلوں پر اور اگلے روز معروف انگریزی روزنامہ میں اسلام آباد کی متنازع لال مسجد کے خطیب مولانا عبداُلعزیز کی برطرفی اور اُن کی 3 ماہ تک لال مسجد میں داخلے پر پابندی کی خبریں ٹیلی کاسٹ اور شائع ہونے کے بعد معاملہ ابھی تک کافی اُلجھا ہُوا ہے۔ سرکاری مسجد کے پہلے امام / خطیب مولانا محمد عبداللہ غازی تھے ۔ 17 اکتوبر 1998ء کو اُنہیں کسی نے قتل کردِیا تھا تو، اُن کی جگہ اُن کے بیٹے مولانا عبداُلعزیز خان نے امامت / خطابت کے فرائض سنبھالے لیکن، لال مسجد اُس وقت متنازع بن گئی تھی جب، صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز کے دَور میں 6 اپریل 2007ء کو نظام ِاِسلام اور شرعی عدالت کے قیام کا اعلان کردِیا تھا ۔ ’’ اپنے اِس اعلان میں مولانا عبداُلعزیز نے وفاقی حکومت کو وارننگ دے دِی تھی کہ اگر اُس نے ایک ماہ کے دَوران نفاذِ شریعت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے اور لال مسجد اوراُس سے ملحقہ جامعہ حفصہ ، کی انتظامیہ طلبہ اور طالبات کے خلاف کارروائی کی کوشش کی تو، اُس کے جواب میں فدائی حملے ہوں گے ‘‘۔ اُن دِنوں حکومت میں شامل پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین اور وفاقی وزیر مذہبی امور جناب اعجاز اُلحق نے ، مولانا عبداُلعزیز اور اُن کے چھوٹے بھائی (نائب خطیب )غازی عبداُلرشید سے کئی بار مذاکرات کئے لیکن، اُنہیں یہی جواب ملا کہ ’’اگر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو، ملک بھر میں ’’خُود کُش حملے ‘‘ہوں گے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ آخرِ کار صدر جنرل پرویز مشرف کی ہدایت پر 3 جولائی 2007ء کو پاک فوج نے لال مسجد اور اُس سے ملحقہ مدرسہ حفصہ میں مقیم پناہ گزینوں کے خلاف "Operation Sunrise" کِیا۔ بعد ازاں 20 اپریل 2013ء کو شریعت کورٹ کے جج جسٹس شہزادو شیخ پر مشتمل ’’ لال مسجد کمیشن‘‘ کی رپورٹ منظر عام پر آئی تو، اُس میں جسٹس صاحب نے لکھا تھا کہ ’’ آپریشن میں 103 دہشت گرد ہلاک ہُوئے اور ہتھیاروں کے کم از کم استعمال کے نتیجے میں پاک فوج کو جانی نقصان بھی اُٹھانا پڑا۔ کیونکہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں پناہ گزین دہشت پسند بلا اشتعال فائرنگ اور خُود کُش حملوں کے لئے مکمل طور پر تربیت یافتہ تھے اور فوج صِرف اُس وقت فائرنگ کرتی تھی جب لال مسجد کے اندر سے فائر ہوتا تھا ‘‘۔ اِس آپریشن میں 11 فوجی افسران اور اہلکار بھی شہید ہُوئے لیکن، افسوس کہ متحدہ مجلس عمل کے صدر قاضی حسین احمد (مرحوم) سیکرٹری جنرل مولانا فضل اُلرحمن اور جمعیت عُلماء اسلام ( ف) کے مولانا عبداُلغفور حیدری نے 12 جولائی 2007ء کو اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بمباری ، امریکی مفادات کی حفاظت کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو شہید نہیں کہا جاسکتا؟‘‘۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ"Operation Sunrise" کے دَوران مولانا عبداُلعزیز برقع پہن کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ اُن کی والدہ اور چھوٹا بھائی غازی عبداُلرشید جاں بحق ہوگئے تھے اور پھر مولانا عبداُلعزیز کا یہ کہنا بھی سچ ثابت ہُوا تھا کہ ’’ لال مسجد آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردوں نے پاکستان کی کئی مساجد ، امام بارگاہوں اور اولیائے کرامؒ کے مزاروں پر خُود کش حملے کردِئیے تھے ۔ 31 دسمبر 2014ء کو ایک نجی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہُوئے مولانا عبداُلعزیز نے کہا تھا کہ ’’ جمہوریت کُفر کا نظام ہے۔ پاکستان کے85 فی صد لوگ پاکستان میں نظامِ شریعت چاہتے ہیں۔ 13 نومبر 2015ء (جمعہ کو) پیرس میں دہشت گردوں کی طرف سے کئے جانے والے دھماکوں سے بہت سے بے گناہ اور معصوم لوگ لْقمۂ اجل بن گئے تھے اور اْسی روز (جمعہ کو) مولانا عبدالعزیز نے لال مسجد کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہْوئے کہا تھا کہ ’’اگر حکومتِ پاکستان نے 20 نومبر (جمعہ تک) نظام شریعت نافذ نہ کِیا تو جامعہ حفصہ کی 1600 اور جامعہ حفصہ کی شاخوں کی دوسری طالبات سڑکوں پر آجائیں گی ‘‘۔ مولانا عبدالعزیز نے اپنی سرپرستی اور نگرانی میں راولپنڈی/ اسلام آباد کے گردو نواح میں مدرسوں کے طلبہ کا تذکرہ نہیں کِیا تھا۔ مولانا عبدالعزیز نے مختلف جیلوں میں قید مذہبی لوگوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کِیا تھا۔ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے مولانا عبدالعزیز سے مذاکرات کئے لیکن وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے 20 نومبر تو کیا؟ آج 6 دسمبر تک نظام شریعت قائم نہیں کِیا حالانکہ اپنے 13 دسمبر 2014ء کے انٹرویو میں مولانا عبدالعزیز کھلی پیشکش کر چکے ہیں کہ ’’اگر وزیراعظم نواز شریف پاکستان میں قرآن و سنت کا نظام نافذ کر دیں تو وہ بے شک ’’امیر اُلمومنین‘‘ بن جائیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا‘‘۔ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد مولانا عبدالعزیز خاموش ہیں۔ کیا انہیں کسی نے یقین دلایا ہے کہ کسی مناسب وقت پر وزیراعظم نواز شریف ’’امیر اُلمومنین‘‘ بننے کے لئے جمہوریت کی بنیاد پر قائم ہونے والے پاکستان میں مولانا عبدالعزیز کی مرضی کے مطابق قرآن و سنت کا نظام قائم کردیں گے؟ اور جیلوں میں قید اُن ’’مذہبی لوگوں‘‘ کا کیا ہُوا؟ جن کی رہائی کا مولانا عبداْلعزیز نے مطالبہ کِیا تھا؟ 4 دسمبر 2015ء کو ایک امریکی سینیٹر نے لندن میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات میں اُنہیں صدر باراک اوباما کا پیغام پہنچایا تھا ، جس میں کہا گیا تھا کہ’’ کیلیفورنیا میں فائرنگ کرکے 14 افراد کو ہلاک کرنے کی واردات میں ملوث پاکستانی نژاد خاتون تاشفِین ملک کا اسلام آباد کی ’’لال مسجد ‘‘ کے مولانا عبداُلعزیز سے رابطہ تھا ۔ تلاش اور تحقیقات کے بعد تاشفِین کے گھر سے مولانا عبداُلعزیز کے ساتھ اُس کی تصاویر بھی برآمد ہوگئی تھیں۔ ریاست کی رِٹ! معزز قارئین!۔ لال مسجد آپریشن کے بعد مولانا عبداُلعزیز سمیت دیگر افراد کے خلاف 53 مقدمات درج کئے گئے تھے ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کئے گئے کئی افراد میں سے 662 کو رہا بھی کردِیا گیا تھااور جامعہ حفصہ کی 447طالبات کو بھی وہاں سے بھجوا دِیا گیا تھا۔ لال مسجد کا پس منظر یہ ہے کہ ’’وہ سرکاری ملکیت ہے لیکن، سرکاری ملازم ( امام اور خطیب ) مولانا عبداُلعزیز نے خُود کو امیر اُلمومنین اور اپنے چھوٹے بھائی سرکاری ملازم ( نائب امام اور نائب خطیب کو ) نائب امیر اُلمومنین مقرر کر کے پورے مُلک میں شریعت نافذ کردِی تھی ۔ 25 جون 2019ء کو الیکٹرانک اور 26 جون کو پرنٹ میڈیا پر لال مسجد سے مولانا عبداُلعزیز کی برطرفی اور تین ماہ تک لال مسجد میں داخل ہونے کی پابندی کا فیصلہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد چودھری حمزہ شفقات ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے مفتی رئیس ایوبی اور قاضی نثار نے اِتفاق رائے سے کِیا ہے ‘‘۔ اگر یہ معاملہ واقعی اتنی صلح صفائی سے طے ہوگیا ہے تواِسے تو ، نیک شگون سمجھا جانا چاہیے ۔ صدر پرویز مشرف کے بعد صدر آصف زرداری اور وزیراعظم عمران خان کے دَور میں بھی لال مسجد کا قَضِیّہ اِس لئے طے نہیں ہو سکا تھا کہ وہ حکمران ’’غیر محب وطن طالبان ‘‘ سے خوفزدہ تھے۔ محب وطن اور غیر محب وطن طالبان کی ترکیب میاں نواز شریف کے دَور کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ایجاد کی تھی۔ بہرحال مَیں تو لال مسجد کے حال اور مولانا عبداُلعزیز کے مستقبل کے بارے میں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور چند عُلماء کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہُوں۔ اللہ کرے ! کہ ، میری سوچ غلط ہو!۔